• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ کالم میں، میں نے سندھ میں ثقافتی انقلاب کی نوید سنائی تھی اور اس کے کچھ انسان دوستی کے پہلوئوں کا ذکر کیا تھا مگر اب جو میں نے اس سلسلے میں کچھ مزید مطالعہ کیا ہے تو پتہ چلا کہ ثقافتی انقلاب اور انسان دوستی سندھ کے لئے نئے نہیں، اس سلسلے میں حقائق جاننے کے لئے سندھ کی قدیم تاریخ اور آریائوں کے دور کی دھرمی کتابوں ’’ویدوں‘‘ کا مطالعہ کرنا پڑے گا، ہوسکتا ہے کوئی مجھ سے اتفاق نہ کرے کہ جب سے سندھ دھرتی وجود میں آئی ہے انسان دوستی اس کا محور رہی ہے،یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے،سندھ میں متواترمختلف علاقوں سے مظلوم اور بے کس لوگ آکر آباد ہوتے رہے ہیں جنہیں یہاں کے باسیوں نے مختلف اسباب کی بنا پرہمیشہ سہولتیں فراہم کی ہیں اور ان کے لئے مسائل پیدا کرنے سے گریزکیا ہے۔ شاید وہ وقت بھی آئے جب تاریخ دان نئے سرے سے سندھ کی تاریخ لکھیں اور سندھ کو ’’عالمی پناہ گاہ‘‘ قرار دیں۔ قدیم سندھ کے بارے میں کچھ پڑھنے کے بعد یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ اب جو سندھ میں ثقافتی انقلاب برپا ہورہا ہے یہ پہلی بار نہیں بلکہ سندھ میں اس سے پہلے بھی ثقافتی انقلاب آتے رہے ہیں جن کا مقصد انسان دوستی اور باہمی امن تھا، یہ شاہ عبدالطیف بھٹائی‘ سچل سرمست اور سامی کون تھے، یہ سب صوفی تحریک کے موجد اور اس دور کے سندھ کے ثقافتی انقلاب کے پیش رو تھے جو لاثانی شاعر اور عوامی دانشور بھی رہے ہیں جن کے رنگ ہی الگ تھے، سندھ کی اس ثقافت اور اس صوفی تحریک کا اہم پہلو یقیناً انسان دوستی تھا مگر شاید کچھ لوگ یہ پڑھ اور سن کر حیرت میں پڑجائیں اور اعتبار بھی نہ کریں کہ صوفی تحریک کے ان بانیوں کی ایک خاص رخ میں تبلیغ کے نتیجے میں اس وقت سندھ کی ثقافت میں خواتیں کا بے پناہ احترام ہوتا تھا اور انہیں معاشرے میں کلیدی اہمیت دی جاتی تھی، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ شاہ لطیف کے ہیروز مرد نہیں عورتیں تھیں مثال کے طور پر شاہ لطیف کا ہیرو تھر کا بادشاہ عمر نہیں ایک غریب تھری عورت ’’ماروی‘‘ تھی‘ اسی طرح شاہ لطیف کا ہیرو بلوچستان کا شہزادہ پنوں نہیں، بھنبھور سندھ کی ایک دھوبن ’’‘‘ تھی، شاہ لطیف کا ہیرو سندھ کے سما حکمرانوں میں سے ایک ’’جام تماچی‘‘ نہیں مگر میر بحر خاندان کی ایک غریب خاتون ’’نوری‘‘ تھی۔ اس سلسلے میں شاہ لطیف کے کئی اشعار پیش کئے جاسکتے ہیں۔ فی الحال میں فقط سسّی کے حوالے سے شاہ لطیف کا ایک شعر یہاں پیش کررہا ہوں جو سسّی کی اس کیفیت کے بارے میں ہے جو اس وقت اس پر طاری ہوئی جب شہزادے پنوں کے بھائی پنوں سے ملنے کے لئے بھنبھور آئے اور رات کو اسے نشہ پلاکر گھوڑوں پر سوار کرکے بلوچستان واپس لے گئے، صبح کو جب سسّی کو پتہ چلا کہ پنوں کو اغوا کرکے لے گئے ہیں تو سسّی پیدل پہاڑوں کے راستے پنوں کے پیچھے بھاگی، جب اس کے پائوں چھلنی ہوگئے تو گھٹنوں اور کہنیوں کے بل پرسرکنے لگی اور شاید بعد میں اس ہی طرح پہاڑوں میں سرکتے اس کی جان چلی گئی۔ اس سلسلے میں شاہ لطیف نے سسّی کی اس کیفیت اور اس جدوجہد پر کئی اشعار کہے ہیں، مگر فی الحال میں اس سلسلے میں شاہ لطیف کافقط ایک شعر پیش کررہا ہوں جو سندھی زبان میں کچھ اس طرح ہے۔ ’’پیرین پوندی سانئر‘ کین چوندی سانئر‘ رہی وج رات بھنبھور میں‘‘ اردو ترجمہ : میں پائوں پڑونگی، آپ کو کچھ نہیں کہوں گی، بس ایک رات بھنبھور میں رہ جائیں۔شاہ لطیف کے اس تاریخی شعر کا استعمال ایک بار اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی ایک تاریخی سیاسی تقریر میں کیا تھا، یہ وہ زمانہ تھا جب مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن چکا تھا اور مغربی پاکستان کا اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کردیا گیا تھا اور وہ اس پاکستان کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے، اس وقت شیخ مجیب الرحمان مغربی پاکستان میں قید تھے، دوسری طرف اگر میں غلط نہیں ہوں تو وجود میں آنے والے بنگلہ دیش کی اس وقت کی حکومت نے پاکستان کی فوج کے کچھ افسران کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا تھا، اس مرحلے پر ذوالفقار علی بھٹو نے زیر حراست شیخ مجیب الرحمان سے ملاقات کی جس میں کئی اہم ایشوز پر مذاکرات ہوئے اور کئی اہم فیصلے ہوئے، ان میں سے جو دو فیصلے ظاہر کئے گئے ان کے مطابق بھٹو نے شیخ مجیب الرحمان کو آزاد کرکے براستہ لندن واپس بنگلہ دیش بھیجنے کا وعدہ کیا اور شیخ مجیب الرحمان سے وعدہ لیا کہ نہ صرف پاکستان کے ان فوجی افسران پر مقدمہ نہیں چلایا جائے گا بلکہ انہیں آزاد کرکے باعزت طور پر پاکستان بھیجا جائے گا، بعد میں ان دونوں فیصلوں پر عمل ہوا مگر شیخ مجیب الرحمان کی رہائی اور اسے اپنے ملک واپس بھیجنے کے بارے میں پاکستان کے عوام کو اعتماد میں لینے کے لئے بھٹو نے غالباً لاہور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا جس میں شیخ مجیب الرحمان کو رہا کرکے بنگلہ دیش بھیجنے کے بارے میں عوام کو اعتماد لیا۔ اس مرحلے پر اس جلسے سے خطاب کے دوران وہ شیخ مجیب الرحمان سے مخاطب ہوئے اور ماحول کو سازگار بنانے کے لئے انہوں نے شاہ لطیف کا یہ شعر سندھی میں پڑھا۔ لہٰذا سندھ کی قدیم تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں بھی سندھ میں صوفی تحریکیں اور صوفی رنگ میں رنگے ہوئے ’’ثقافتی انقلاب‘‘ آتے رہے ہیں مگر اس وقت سندھ میں صوفی تحریک کے نتیجے میں جو ’’ثقافتی انقلاب‘‘ اٹھتا ہوا محسوس ہورہا ہے اس میں اور ماضی میں آنے والے ثقافتی انقلابوں میں جہاں کچھ پہلوئوں میں مماثلت ہے تو وہیں اس نئے ثقافتی انقلاب کے کچھ پہلو نئے ہیں‘ سندھ کے پرانے ثقافتی انقلابوں اور اس وقت اٹھنے والے ثقافتی انقلاب کے جو پہلو ایک جیسے ہیں ان کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے: ’’انسان دوستی اور خواتین کا احترام وغیرہ مگر اس نئے ثقافتی انقلاب کے جو نئے پہلو نظر آرہے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں: (1) زبان اور نسل کی بنیاد پر نفرت کو دفن کرکے ایک ایسا معاشرہ وجود میں لانا جو نہ صرف اس خطے بلکہ ساری دنیا کے لئے مثال ہو۔ (2) سارے مذاہب سے یک جہتی کا مثالی مظاہرہ کرنا، سندھ میں جو عناصر اس جذبے سے سرشار ہیں وہ تو یہ رائے رکھتے ہیں کہ غیر مسلموں یعنی ہندوئوں، عیسائیوں و دیگر کو اقلیت کہہ کر ان کے ساتھ یہ امتیازی سلوک ختم کیا جائے اور آئین میں ترمیم کرکے ہندوئوں، عیسائیوں اور دیگر غیر مسلموں میں سے ملک کا صدر یا وزیر اعظم بننے کی بھی گنجائش پیدا کی جائے، ان کا کہنا ہے کہ جب ہندوستان میں ایک مسلمان صدر بن سکتا ہے تو پاکستان میں کوئی ہندو یا عیسائی پاکستان کا صدر یا وزیر اعظم کیوں نہیں بن سکتا؟

تازہ ترین