• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ’’ عدالتیں ختم ہوجائیں تو پھر جنگل کاقانون ہوگا ۔یہ عدالت آئین کے تحت بنائی گئی ہے، سپریم کورٹ کا تقدس واضح نظر آنا چاہئے تھا۔ آئین ایک عمرانی معاہدہ ہے اور بہت مقدس ہے۔ ہمیں لوگوں میں عدلیہ کے وقار کو بحال کرناہے۔ ہماری ذمہ داری انصاف کرنا ہے جس سے معاشرہ قائم رہتا ہے، بے انصافی سے معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔ پاکستان کے عوام سپریم کورٹ کی ریڑھ کی ہڈی بنیں گے، نہ ہم پریشان ہیں اور نہ ہی قوم پریشان ہیں، الحمد اللہ کوئی نکال باہر نہیں کرسکتا ۔‘‘
بہت برس پہلے مولانا ابولالکلام آزاد نے کلکتہ کی ایک عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر کہا تھا ’’جب کبھی حکمراں طاقتوں نے آزادی اور حق کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھائے ہیں تو عدالت گاہوں نے سب سے زیادہ آسان اور بے خطا ہتھیار کا کام دیا ہے۔‘‘ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ اُن کا کہا ہوا غلط ثابت ہورہا ہے کہ عدالتیں اپنی روایت کے مطابق حکمرانوں کا ہتھیار بننے کی بجائے ان کے ساتھ انصاف کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ مولانا آزاد نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’تاریخِ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں۔ دنیا کے مقدس بانیانِ مذہب سے لیکر سائنس کے محققین اور مکتشفین تک، کوئی پاک اور حق پسند جماعت نہیں ہے جو مجرموں کی طرح عدالت کے سامنے کھڑی نہ کی گئی ہو۔ بلاشبہ زمانے کے کے انقلاب سے عہدِ قدیم کی بہت سی برائیاں مٹ گئیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اب دنیا میں دوسری صدی عیسوی کی خوفناک رومی عدالتیں اور ازمنہ متوسط (مڈل ایجز) کی پراسرار ’’انکویزیشن‘‘ وجود نہیں رکھتیں، لیکن میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ جو جذبات ان عدالتوں میں کام کرتے تھے، ان سے بھی ہمارے زمانے کو نجات مل گئی ہے۔ وہ عمارتیں ضرور گرا دی گئیں جن کے اندر خوفناک اسرار بند تھے لیکن ان دلوں کو کون بدل سکتا ہے جو انسانی خود غرضی اور نا انصافی کے خوفناک رازوں کا دفینہ ہیں ؟‘‘۔ یہاں بھی معاملہ پہلی بار اُن کے فرمان کے برعکس نظر آرہا ہے ۔پہلی بار عدالتِ عظمٰی میں ایسے دھڑکتے ہوئے دل نظر آرہے ہیں جو معاشرہ کو حقیقی انصاف فراہم کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں ۔
مولانا آزاد نے اِسی بیان میں کہا تھا کہ ’’عدالت کی نا انصافیوں کی فہرست بڑی ہی طولانی ہے۔ تاریخ آج تک اس کے ماتم سے فارغ نہ ہو سکی۔ ہم اس میں حضرت مسیح جیسے پاک انسان کو دیکھتے ہیں جو اپنے عہد کی اجنبی عدالت کے سامنے چوروں کے ساتھ کھڑے کئے گئے۔ ہم کو اس میں سقراط نظر آتا ہے، جس کو صرف اس لئے زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ وہ اپنے ملک کا سب سے زیادہ سچا انسان تھا۔ ہم کو اس میں فلورنس کے فدا کارِ حقیقت گلیلیو کا نام بھی ملتا ہے، جو اپنی معلومات و مشاہدات کو اس لئے جھٹلا نہ سکا کہ وقت کی عدالت کے نزدیک ان کا اظہار جرم تھا۔‘‘ ۔میرے خیال میں مولانا آزاد یہ کہتے ہوئے اِس سچ کو فراموش کر گئے کہ اِنہی عدالتوں نے کروڑوں مرتبہ انصاف بھی کیا ہے اگر ایک سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا ہے تو ہزاروں سقراط اِنہی عدالتوں کی بدولت زندہ بھی رہے ہیں اگر ایک عیسیٰ مصلوب ہوا ہے تو کتنے مسیحاؤں کو انہی عدالتوں سے زندگی بھی ملی ہےاگر ایک منصور سولی پر سجا ہے تو انہی عدالتوں نے کتنے منصوروں کی سچائی کو تسلیم بھی کیا ہے۔عدالت تو بنائی ہی انصاف کیلئے گئی ہے۔
میں نے چیف جسٹس کے جن جملوں سے کالم کا آغاز کیا اگر اُن کی روح میں اتر کر دیکھا جائے تو وہ واضح الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ اس وقت عدالت پر کڑا وقت ہے ۔پاکستانی عوام کو انصاف گاہ کو عزت و وقار کے ساتھ کھڑے رکھنے کےلئے ریڑھ کی ہڈی کا کام دینا ہوگا۔ انہوں نے اِس یقین کا بھی اظہار کیا کہ ہمیں کوئی باہر نہیں نکال سکتا یہ جملہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ حکمراں انہیں نکالنے کی کوشش میں سرگرم ِ عمل ہیں ۔جب ملک کا وزیر اعظم سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے اور کہے کہ میرا وزیر اعظم تو وہی شخص ہے جسے سپریم کورٹ نا اہل قرار دے دیا ہے تو سمجھنے والوں کو معاملات کی سنگینی کا احساس ہوجاتا ہے ۔جب کوئی سزا یافتہ شخص سپریم کورٹ کے خلاف بڑے بڑے جلسے حکومت کی مدد سے کرنا شروع کردے تو پھر دیکھنے والے سوچنے لگتے ہیں کہ ہاں یہ وہی حملہ ہے جو کئی برس پہلے سپریم کورٹ پر کیا گیا تھا بس اُس کی شکل بدل دی گئی ہے ۔عدالتوں کے ساتھ حکمرانوں کا یہ رویہ بھی کوئی نیا نہیں تاریخ کے سینے پر دستِ تحقیق رکھا جائے تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہوں نے کتنے دھڑکتے دلوں والے قاضی القضا مٹی میں ملا دئیے ۔کتنوں کی گردنیں تن سے جدا کردیں ۔ہر اُس عدالت کو ختم کر دیا گیا جس سے بادشاہ کو خوف محسوس ہوا ۔اُس کی آخری مثال جنرل پرویز مشرف کی ایمریجنسی ہے۔ جب سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا مگر پاکستانی قوم نے انہیں پوری عزت دی اور اُن کے ساتھ کھڑی ہو گئی حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستانی قوم اُس سے کہیں زیادہ طاقت کے ساتھ چیف جسٹس ثاقب نثار کے پیچھے بھی کھڑی ہے ۔لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان کی طرف اٹھنے والاہر ہاتھ کاٹ دیا جائے گا ۔اور ہاں یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ یہ لوگ صرف تحریک انصاف سے تعلق نہیں رکھتے ۔عدالتوں پر مسلسل دبائو کو دیکھتے ہوئے مجھے یاد آرہا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے دہشت گردوں نےاتنا خوف پیدا کردیا تھا کہ عدالتیں ان کے مقدمات سننے سے ہراساں دکھائی دیتی تھی ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شاید عدالتوں پر ہونے والے نئے حملے کچھ اِسی قسم کے حالات پیدا کرنا چاہ رہے ہیں ۔

تازہ ترین