• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہیلتھ چارج میں اضافہ!! امیگریشن قوانین…ڈاکٹر ملک کے ساتھ

برطانیہ میں موجود امیگرنٹس کی، ان کے معاملات میں عدم دلچسپی کے باعث اب حکومت نے اس سال اپریل سے ہیلتھ چارج کو دگنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ برطاننیہ ایک فلاحی ریاست ہے۔ فلاحی ریاستوں میں رعایا کے علاج و معالجہ کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ یہاں پر امیگرنٹس سے کسی قسم کی کوئی فیس نہیں لی جاتی تھی سوائے برطانوی شہریت کی درخواست کے۔ لیکن جب حکومت کے علم میں آیا کہ امیگرنٹس کو نچوڑا جاسکتا ہے تو اس مد میں حکومت نے امیگریشن کی تقریباً ہر درخواست پر فیس عائد کردی اور ہر سال اس میں اضافہ کیا جانے لگا۔ چونکہ خود امیگرنٹس اس معاملہ میں خاموش ہیں اس لئے ان فیسوں کو ہر سال بڑھایا جانے لگا۔ عام طور پر ہر سال مہنگائی کے سبب ملازمین کی تنخواہوں میں زیادہ سے زیادہ چار، پانچ فیصد اضافہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح امیگریشن کی درخواستوں پر بھی اضافہ کی شرح یہی اور اسی تناسب سے ہونی چاہئے لیکن حکومت اس میں سو فیصد سے زائد اضافہ کرتی رہی ہے۔ حتیٰ کہ گزشتہ سال بعض درخواستوں پر دو سو اسی فیصد سے بھی زائد اضافہ کیاگیا۔ حکومت نے 2015میں فیصلہ کیا کہ امیگریشن کی عام درخواستوں کے ساتھ ساتھ اب امیگرنٹ سے ہیلتھ چارج Health Charge کے نام سے موسوم دو فیصد پائونڈز سالانہ کے حساب سے رقم وصول کی جائے گی۔ اس پر بھی امیگرنٹس کمیونٹی کی جانب سے کوئی احتجاج نہیں ہوا اور حکومت اپنے مقاصد میں کامیاب رہی۔ ہیلتھ چارج لینے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ رقم امیگرنٹس سے ان کے علاج و معالجہ کے لئے لی جاتی ہے۔ لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ اگر کوئی شخص صحت مند ہے اور وہ نہ تو ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور نہ ہی بیمار ہوتا ہے تو پھر ایسی صورت میں یہ رقم ایسے شخص سے وصول نہ کی جائے اور اگر وصول کی جاتی ہے تو اسے سال کے آخر میں واپس لوٹا دی جائے یا پھر اگر کسی شخص نے اپنی میڈیکل انشونس کروا رکھی ہے تو اسے اس ہیلتھ چارج مستنیٰ قرار دیا جائے لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ صرف ہاتھی کے دکھانے والے دانتوں کی طرح کا معاملہ ہے۔
اگرکوئی امیگرنٹ بیمار ہوجاتا ہے اور ہسپتال جاتا ہے، اگراس نے ہیلتھ چارج ادا کررکھا ہے تو وہ مفت علاج کا حقدار ہونا چاہئے لیکن یہاں صورتحال بالکل ہی دوسری ہے۔ ہسپتال والے اپنا بل تیار کرتے ہیں اور امیگرنٹ کی جانب سے ادا کردہ رقم اس بل میں سے منہا کرکے باقی بل کی ادائیگی پر اصرار کرتے ہوئے امیگرنٹس کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ یہ بل ادا کرے۔ راقم کے پاس ایک خاتون کا ایسا ہی ایک معاملہ ہے جس میں خاتون کے ہاں جڑواں بچوں کی پیدائش ہونا تھی۔ وہ ہسپتال گئی جہاں بچے پیدا ہوئے لیکن بدقسمتی سے کچھ بیماری کے سبب دونوں بچے انتقال کرگئے۔ اس خاتون کو ہسپتال نے ایک بچے کے علاج معالجہ کا بل اسی ہزار پائونڈز (£80000) دیا ہے جبکہ دوسرے بچے کا بل چوراسی ہزار پائونڈز دیا ہے اور ہسپتال اور امیگریشن، دونوں نے اس بل کی ادائیگی کے لئے اس بے چاری کا ناک میں دم کررکھا ہے، اس طرح کے ایک اور کیس میں ایک امیگرنٹ کے علاج و معالج کا بل ایک لاکھ چونتیس ہزار پائونڈز بنایا گیا ہے۔ اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ امیگرنٹس پر عائد کردہ ہیلتھ چارج کی رقم کو دگنا کردیا جائے یعنی اب ہر چھوٹے، بڑے امیگرنٹ کو ہر سال چار سو پائونڈز کے حساب سے یہ رقم اپنے ویزوں کی درخواستوں یا ویزوں کی تجدید کی درخواستوں سے قبل ادا کرنا لازمی ہوگی، خواہ وہ بیمار ہو یا نہ ہو اور علاج کروائے یا نہ کروائے ۔ امیگرنسٹی کے لئے زیادہ بہتر رہے گا کہ وہ اپنی پرائیویٹ میڈیکل انشورنس کروا رکھیں لیکن حکومت اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔

تازہ ترین