• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شعبہ تعلیم:میرٹ اور شفافیت لازمی خصوصی مراسلہ… محمد مرتضی نور

حال ہی میں مختلف معروف ملکی اور بین الاقوامی اداروں کے جاری کردہ جائزوں میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم اور انسانی وسائل کے اہم شعبوں کی حالت زار اور کار کردگی کو زیربحث لایا گیا ہے، ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی شعبے کو تنزلی کا شکار قرار دیتے ہوئے بحرانی کیفیت کا شکار قرار دیا ہے۔ورلڈ اکنامک فورم کی ہیومین کیپیٹل رپورٹ 2017کے مطابق پاکستان تعلیم اور ہنر مندی کے حوالے سے 130ممالک میں 125ویں نمبر پرہے جبکہ پاکستان دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک سے بھی کافی پیچھے ہے ،رپورٹ کے مطابق سری لنکا 70ویں ،نیپال98ویں ، انڈیا 103ویں اور بنگلہ دیش 111ویں پوزیشن پر ہے ۔عالمی مسابقتی رپورٹ 2017/18کے مطابق پاکستان اعلیٰ تعلیم اور تربیت کے شعبوں میں 120ویں پوزیشن پر ہے جبکہ سری لنکا 85ویں، نیپال88ویں ،انڈیا 40ویں ،بنگلہ دیش 99ویں،ایران 69ویں،بھوٹان82ویں اور ملائیشیا 23ویں پوزیشن پر ہے ۔ ٹائمز ہائر ایجو کیشن کی حالیہ جاری کردہ جامعات کی عالمی درجہ بندی کے مطابق صرف 4پاکستانی جامعات دنیا کی بہترین 1000جامعات میں شامل ہیں جبکہ 2016میں ان پاکستانی جامعات کی تعدادسات تھی۔ پاکستان کا اعلیٰ تعلیمی شعبہ 187سرکاری و نجی جامعات اور 110سے زائد علاقائی کیمپسز کے ساتھ وفاقی اور صوبائی سطح پر 120ارب سے زائد سالانہ بجٹ کا حامل ہے ،اس اہم شعبہ میں بہتری لانے کے لئے مطلوبہ نتائج قابل ،ایماندراور محنتی قیادت کے بغیر حاصل نہیں کئے جا سکتے ۔اعلیٰ تعلیمی شعبہ کے تمام ا سٹیک ہولڈرز نے متعدد بار اس اہم شعبہ میںخامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے میرٹ اور شفافیت پر مبنی تقرریوں کا مطالبہ کیا ہے۔ حال ہی میںیونیورسٹی اساتذہ کی نمائندہ تنظیم فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن نے وزیر اعظم پاکستان کے نام تحریر شدہ خط کے ذریعے چیئرمین وفاقی ہائر ایجو کیشن کمیشن اور وائس چانسلرز کی میرٹ پر تقرریوں کے لئے ماہرین تعلیم پر مشتمل غیرجانبدار اور غیر سیاسی سرچ کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کیا۔ خوش آئند عمل یہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے 6رکنی سرچ کمیٹی سید بابر علی کی سربراہی میں ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ اکیڈمک ا سٹاف ایسوسی ایشن کے مطابق اعلیٰ تعلیمی شعبہ میں بیرونی سیاسی مداخلت، مدت ملازمت میں توسیع ،ایڈہاک ازم اور سفارشی کلچر کو فروغ دینے کی وجہ سے اس اہم شعبے کی کار کردگی پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جس کی نشاندہی غیر جانبدار حلقے بھی کر چکے ہیں ۔2018اعلیٰ تعلیمی شعبہ کے حوالے سے نہات اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سال وفاقی و صوبائی ہائر ایجو کیشن کمیشن کے سر براہوں سمیت 20سے زائد سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز کی تقرری ہوگی ،سپریم کورٹ آف پاکستان نے مختلف اہم فیصلوں کے ذریعے خود مختار اداروں کے سر براہوں کی تقرری کے لئے صاف ،شفاف اور میرٹ پر مبنی عمل پر زور دیتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو پابند کیا ہے کہ وہ شفافیت کے وضح کردہ اصول و ضوابط پر عمل درآمد یقینی بنائیں اور تقرری کے عمل کے دوران امید واروں کو میرٹ پر ان کی اہلیت ،تجربے اور خصوصیات کو مد نظررکھ کر منتخب کیا جائے ۔ ضروری ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی وضح کردہ گائیڈ لائنز پر عمل در آمد یقینی بناتے ہوئے دوسرے شعبوں کی طرح اعلیٰ تعلیمی شعبہ میں متنازعہ تقرریوں اور قانونی کارروائی سے اجتناب کیا جائے اور صرف اور صرف میرٹ پر مبنی تقرریوں کو یقینی بنایا جائے، اس سلسلے میں ماہرین اعلیٰ تعلیم اور سول سوسائٹی پر مشتمل ورکنگ گروپ برائے اعلیٰ تعلیمی اصلاحات کی متفقہ سفارشات کا بھی جائزہ لیا جائے تاکہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی شعبہ کی حالت میں بہتر ی آ سکے۔ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ماضی میں اعلیٰ تعلیمی شعبہ میں اہم تقرریوں کے دوران سر زد ہونے والی غلطیوں کو دوبارہ نہ دہرایا جائے ،اس سلسلے میںامید واروں کے چنائو کے لئے قائم کی گئی سرچ کمیٹیوں کے ممبران کی تقرری کے عمل کو بھی شفاف بناتے ہوئے کسی بھی دبائو کے بغیر غیر جانبدار اور اچھی شہرت کے حامل سنیئر ماہرین کا چنائو کیا جائے ،تقرریوں کے عمل کے دوران متنازعہ امیدواروں کو زیر غور نہ لایا جائے تاکہ تقرری کے عمل کی شفافیت پر سوالات نہ اٹھ سکیں۔ پاکستان کا روشن مستقبل میرٹ، شفافیت پر مبنی تقرریوں سے مشروط ہے،بر سر اقتدار سیاسی جماعتوں کو بھی چاہئے کہ اپنے انتخابی منشور پر عمل در آمد یقینی بناتے ہوئے گڈ گورننس ،میرٹ اور شفافیت کو فروغ دیں۔

تازہ ترین