• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عرض ہے کہ چند روز شور وغوغا کے بعد معصوم زینب کے قتل کو بھی ہم بھول جائیں گےاور میڈیاکی بریکنگ نیوز الیکشن اور سیاسی بیانات کی نذر ہوجائیں گی۔ایک رپورٹ کے مطابق بے قصور زینب کی طرح 2010 سے بالترتیب ہرایک سال میں 90، 144، 167، 148، 142، 100 اور 68 بچوں کوزیادتی کے بعد قتل کیاجا چکا ہے ۔ آج ان کی والدین پر کیا بیت رہی ہوگی؟ جنسی زیادتیوں کے یہ افسوسناک اور المناک واقعات بالترتیب سب سے زیادہ پنجاب پھر سندھ ،بلوچستان ، کے پی پھر اسلام آباد، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پیش آئے ہیں، جنہیںشہری علاقوں میں 24فیصد اور دیہی علاقوں میں 76فیصد بتایا جاتا ہے۔یہ تو صرف رپورٹ کیے گئے رجسٹرڈ واقعات ہیں، غیر رجسٹرڈ کی تفصیل انتہائی خطرناک اورپریشان کن ہوسکتی ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسے حادثات کے اسباب کیا ہیں؟ زیادہ فراغت، تنہائی اوربے روزگاری بھی جہاں ایک وجہ ہے وہیںاس میں انٹرنیٹ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا بھی بڑا کردار ہے۔ میڈیا پر ایک طرف ایسے حادثات کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے دوسری جانب بعض ایسے غیر اخلاقی ڈرامے بھی نشر کئے جاتے ہیں جن میں بے راہ روی اور غلط دوستیاں بنانےکے سوا کچھ نہیں ہوتا۔اسی طرح والدین اور اساتذہ بچو ں کو دوستانہ انداز میں سمجھانے کی بجائے ان پر دبائو ڈالتے ہیں جس سے وہ مزید بزدل اور دبائو کے شکار بنتے چلتےجاتےہیں۔ایسے میں بعض حضرات جنسی تعلیم کے متعلق مضامین اور لیکچر دینےکا مشورہ دے رہے ہیں، خدارا!اس کا انتہائی خطرناک نتیجہ سامنے آسکتا ہے جس کا اندازہ ہم مغرب سے لگاسکتے ہیں۔والدین اور اساتذہ بچو ں کو سمجھائیںکہ کسی کے لالچ اور باتوںمیں نہ آئیں، مشکوک شخص کے بلانے یا ہراساں کرنے پر فوراََ شور مچائیں۔ سیاستدانوں کو بھی چاہئے کہ ایسے واقعات پر سیاست نہ کریںبلکہ ان کے سدباب کیلئے موثر پالیسی اور منظم حل نکالیں۔
(عبدالرحمٰن خان۔کراچی)

تازہ ترین