• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری،حکومت کو ہراساں کرنے کیلئے لیکس کا منظر رچایا گیا

اسلام آباد (محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار) پونے پانچ سال قبل جب انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا تو نواز شریف اور ان کی پاکستان مسلم لیگ (نون) منصب اقتدار پر فائز ہونے میں متامل تھی کہ مسائل کا انبار ان کی ہمت شکنی کا باعث بن رہا تھا اس کے باوجود انہوں نے اپنے رفقاء کی مشاورت سے زمام حکومت سنبھال لی اور مسائل میں دھنسے ملک کو اس آزمائش سے نکالنے کیلئے ٹھان لی وہ مسائل کا ابھی کما حقہ احاطہ بھی نہ کرنے پائے تھے کہ لاہور سے دو سودائی بے ہنگم ہجوم لیکر وفاقی دارالحکومت پہنچ گئے اور اسلام آباد کو مسدود کر دیا یہ سلسلہ چار ماہ تک جاری رہا نواز شریف اور ان کے رفقاء نے اس کا بڑی ثابت قدمی سے مقابلہ کیا اب وہ چومکھی لڑ رہے تھے انہیں عوام سے اپنے وعدے بھی یاد تھے۔ اور پیش آمدہ نام نہاد احتجاج بھی ان کے پائوں کی زنجیر بننے کے لئے کوشاں تھا زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ان کے خلاف پہلے عدلیہ متحرک ہوئی پھر تحقیقاتی اداروں نے ہاتھ دکھانا شروع کر دیا۔ حکومت کو ہرا ساں کرنے کیلئے لیکس کا منظر رچایا گیا۔ اس پورے عرصے میں جہاں حکومت دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ کا قلع قمع کر رہی تھی وہاں اس اقتصادی راہداری پر چین کے ساتھ معاہدہ ہوتے ہی تیزی کے ساتھ کام شروع کر دیا گیا،مہنگائی پر قابو پایا جا چکا تھا عدالتی عمل کے ذریعے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے سبکدوش کر دیا گیا پھر ان کے خلاف مقدمات اور تحقیقات کا لامتناہی دفتر کھول دیا گیا۔ اس مذموم کام کے لئے سدابہار رضا کار دستیاب تھے۔ جن میں بھابڑہ بازار کا مسخرہ بطورخاص قابل تذکرہ ہے اب نواز شریف کی معروضات کو مسترد کیا جا رہا تھا۔ اپیلوں کی گنجائش پر ہی نہیں رکھی گئی تھی اپیلیں ہوئیں تو خارج کر دی گئیں۔ کبھی تحقیقاتی اداروں میں طلبی ہو رہی ہے تو کبھی عدالتوں سے بلاوا آرہا ہے کسی اپیل، درخواست، نظرثانی کو قابل اعتنا نہیں سمجھا گیا مسترد پر مسترد کی آوازیں آ رہی تھیں۔ بنی گالہ کا اوباش اور اس کے ہمنوا لگاتار زہرافشانی کئے جا رہے تھے کوئی ان سے بازپرس کرنے والا نہیں تھا وہ نیب جس کے بعض عہدیداروں کو خود احتساب کے شکنجے میں کسا جانا چاہئے تھا ملک کے تین مرتبہ وزیراعظم رہے شخص کو طلب کر رہا تھا اہانت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جا رہا تھا اس تمام تر مکروہ منظر کو عوام بڑے غور سے دیکھ رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ نوازشریف کے جلسوں کا پھیلائو ہر نئے الزام اور ہرنئے استغاثہ کے بعد پھیلتا جارہا ہے اور یہ سل ِ رواں اب سمندر کی شکل اختیار کرچکا ہے رائے عامہ نوازشریف کے خلاف الزامات اور ان کے بارے میں ہرزہ سرائی کرنے والوں کو مسترد کئے جارہے ہیں جبکہ ان کے بڑے حریف ہونے کے دعویدار عمران خان کے جلسے جنہیں وہ سونامی کا نام دیا کرتے تھے۔ اب تنگ آب جو کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔17جنوری کو لاہورمیں پاکستان اورپنجاب کے عوام نے انہیں دھتکار دیا اب جمعہ کے روز لودھراں میں اس کا ایکشن ری پلے ہوگیاہے۔ اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ عوام نے جس تیزی کے ساتھ تحریک انصاف اور عمران خان کو چند حلقوں میں سر پر بٹھایا تھا اب اس سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ انہیں اتار کر پٹخ رہے ہیں۔
تازہ ترین