• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نہ بادِ صبا چلی ہےاور نہ ہی گہرے بادلوں سے اندھیرا چھایا ہے۔ نہ مطلع صاف ہوا ہے اور نہ ہی جھکڑ چلے ہیں، نہ پو َن کا گزر ہوا ہے اور نہ ہی پُروا کی ہوا آئی ہے، نہ پھوار پڑی ہے اور نہ ہی سیلاب آیا ہے۔ سیاسی مطلع اب بھی جزوی طور پر ابر آلود ہے۔ گو سینیٹ کے الیکشن سے دھندلاپن کم ہوا ہے، طغیانی اور تلاطم کے آثار بھی نظر نہیںآرہے مگر ہنوز بہت سے بگولوں کا ڈر موجود ہے۔
شیوکمار بٹالوی نے اپنے جس شِکرے یار کی کلغی کا ذکر کیا تھا، آج اسی تمثیل سے کام چلاتے ہیں۔ کلغی دار کا خیال ہے کہ فروری مارچ میں ایک طرف سینیٹ الیکشن کا موسم ہوگا تو دوسری طرف توہین عدالت کی سزائوں کے ساتھ ساتھ نواز شریف اور مریم نواز کے احتساب عدالتوں میں مقدمات فائنل ہو رہے ہوںگے بلکہ ان کی سزائوں کا اعلان ہو رہا ہوگا۔ کلغی داروں کا خیال ہے کہ باپ بیٹی کے خلاف ناقابل تردید شواہدموجود ہیں۔ منی ٹریل مل چکی ہے، اس لئے ان کا بچنا مشکل ہوگا۔ یہ گرفتار ہوں گے اور یوں انتخابی سیاست سے نکال باہر کئے جائیں گے۔ ان کے پاس شاید پارٹی صدارت بھی نہ رہے۔ چینی کہاوت ہے کہ ’’بندر کو ڈرانا ہےتو مرغی کو مارو، بندر خود ہی ڈر جائے گا۔‘‘ لیکن تیاری یہ ہے کہ مرغیوں کے بعد بندر پر بھی ہاتھ ڈالاجائے۔ قانون اور آئین کے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے عدالتی عمل جاری رہے، احتساب چلتارہے۔ کہیں بھی ظالمانہ قوت (Brutal Force) استعمال نہ کی جائے تاکہ کسی کی مظلومیت کا تاثر نہ ابھر سکے۔ انتخابی عمل چلنے دیا جائے۔ کلغی دار دوست کا اندازہ ہے کہ اگر الیکشن ہوئے، تب بھی ن لیگ یا تحریک انصاف کی اکثریت نہیں ہوگی بلکہ معلق پارلیمان ہوگی۔اس لئے کلغی دار دوست مطمئن اور شاداں ہے کہ جو بھی ہوگا دیکھ لیں گے۔ کوئی اتنا بڑا مسئلہ پیدا ہونے کا امکان نہیں۔
نااہل آج کل عوامی مقبولیت کی پگڑی پہنے پھر رہا ہے۔ اسے پگڑی پوش کہہ لیتے ہیں۔ پگڑی پوش کے حواریوں کا بھی خیال ہے کہ موسم ابرآلود ہے، گردوغبار چھایا ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان آخری منزل نہیںتھی ، مرحلہ وار آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے قلعے بھی جلد سرکرنے کی کوشش کی جائے گی۔ نااہل پگڑی پوش کے اہل بھائی ٹوپی پوش ہیں۔ جناح کیپ اور مائو کیپ میں بہت ہی طرح دار لگتے ہیں۔ ٹوپی پوش کے اقتداری ساتھی کہتے ہیں کہ ن لیگ مزاحمتی پارٹی نہیں، انتخابی عملیت پسند پارٹی ہے جبکہ پگڑی پوش، کلغی دار کے مقابلے میں اسے مزاحمتی جماعت بنانا چاہتے ہیں۔ حقیقت میں ایساممکن نہیں ہے۔ٹوپی پوش کی حکمت ِعملی یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ قربانی بھی دینی پڑے تو قومی اسمبلی کے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کے مرحلے تک پہنچا جائے۔ اس وقت کلغی دار کمزور ہوگا اور اس سے رعایتیں لی جاسکیں گی۔ ٹوپی پوش کے حواری یہ سمجھتے ہیں کہ کلغی دار پگڑی پوش سے تنگ تو ہیں لیکن ٹوپی پوش سے خوش ہیں۔ کلغی داروںکا یہ بھی خیال ہے کہ ٹوپی پوش دل و جان سے ان کا حامی ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی کامیاب حکمت ِ عملی سے پگڑی پوش کا سارا سیاسی ورثہ اپنی جھولی میں ڈال لے۔ ٹوپی پوش سعودی عرب کے دورے کے بعد سے بہت خوش ہے۔ فرض کرتے ہیں کہ وہاں ملاقات میں برادر ملک نے لازماً پگڑی پوش کو یہ مشورہ دیا ہوگا کہ محاذ آرائی والا انداز اختیار نہ کریں تاکہ پاکستان عدم استحکام کا شکار نہ ہو اور امریکہ کے ساتھ خراب تعلقات کے دور میں سب ایک صفحے پر اکٹھے رہیں۔ مفروضہ یہ ہے کہ جواباً نواز شریف نے دھرنوں کے واقعات اور ان کےپس پردہ کرداروں کا ذکر کیاہوگا اور یہ بھی کہا ہوگا کہ ان کے ساتھ ادارے زیادتیاں کر رہے ہیں اور کروارہے ہیں ، اس لئے انہیں انتخابات میں حصہ لینے کے لئے (Level Playing Field)یعنی برابری کے مواقع دیئے جائیں۔ سفارتی ذرائع کہتے ہیں کہ اس ملاقات سے شہباز شریف کو مدد ملی اور عمران خان کے کمزور سفارتی تعلقات کا راز بھی کھل گیا۔ پگڑی پوش اور ٹوپی پوش بھائی اکٹھے ہیں مگر دونوں کی سوچ الگ الگ ہے۔ ٹوپی پوش کا خیال ہے کہ وہ کلغی دار کو راضی رکھتے ہوئے اقتدار کے سنگھاسن پربراجمان ہو جائیں گے۔ یوں وہ پگڑی پوش کو بھی ریلیف دلائیں گے اور کلغی د ار کو بھی خوش رکھیں گے۔ مگر بے کلغی، بےپگڑی اور بے ٹوپی والے عام لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر ایک بھائی جیل میں کرپشن کے الزام میں بند ہوگا تو دوسرا بھائی کس طرح پاک صاف ہو کر اقتدار کی زمام سنبھال سکے گا؟ اخلاقی، مادی حیثیت اور تضادات پر اتنے سوالات اٹھیں گے کہ یہ بندوبست چلانا مشکل ہو جائے گا۔
کچھ بھی کہیں مگر ٹوپی والے بھائی بہرحال مشاہد حسین جیسے خوش قسمت نہیں ہیں کہ کلغی دار بھی ان کی تعریفیں کریں اور پگڑی پوش بھی ان کو اپنی جماعت میں شامل کرکے پھولے نہ سمائیں۔ مشاہد حسین پاکستان کے ان چند خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جن کے لئے آندھی اور طوفان، دھوپ اور چھائوں میں بھی مطلع صاف رہتا ہے۔
سندھی ٹوپی والے صاحب سینیٹ کی زیادہ نشستوں کی توقع میں استعفوں سے انکاری ہوئے اور عمران خان کو اکیلے چھوڑ کر اپنی حکمت ِ عملی پر رواں دواں ہیں۔ انہیں علم ہے کہ پگڑی پوش کے لئے طوفانوں کا موسم ہے۔ معلق پارلیمان آئی تو سندھی ٹوپی والے بھی طوفان تھمنے کے بعد اپنی دکان سجالیں گے اور یوں ان کی مشکلات بھی کچھ کم ہو جائیں گی۔
مذہبی عمامے والے بھی اقتدار کے موسم کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ایم ایم اے کی بحالی کےبعد سے عمامہ پوش پرامید ہیں کہ انہیں خیبرپختونخوا میں عمران خان کے خلاف بہتر فضا ملے گی۔ ان کا خیال ہے کہ وہاں ن لیگ بھی ان سے تعاون چاہے گی اور یوں وہ پہلے سے بہت بہتر صورتحال میں ہوں گے۔ بلوچستان میں بھی جےیو آئی اور جماعت اسلامی کاتعاون انہیں سوٹ کرے گا۔
باقی رہ گئے ہمارے جناح ثانی، جناح کیپ والے دوست، ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ نواز شریف کی نااہلی کے فوراً بعد انتخابات ہوتے، عمران خان وزیراعظم بن کر ملک چلا رہے ہوتے لیکن اپنوں اور غیروں دونوں کی ریشہ دوانیاں آڑے آئیں۔ اب عمران خان جمہوریت کے سب سے بڑے محافظ ہیں کیونکہ اگر بساط الٹی تو سب سے زیادہ نقصان ان کا ہوگا۔ فی الحال کئی کلغی دار ان سے روٹھے ہوئے ہیں لیکن انتخابی فضا چلے گی تو پھر عمران میلے لگائے گا، سونامی اٹھائے گا، اسے چاہئے کہ جناح کیپ پہننے کےساتھ ساتھ اس موسم میں وہ انتخابی منشور لائے، شیڈو کابینہ بنائے اور اداروں کےدفاع کی بجائے اپنا زیادہ وقت اپوزیشن والے رویے کو دے، دفاعی پوزیشن اسے سوٹ نہیں کرتی۔ مطلع صاف ہونے کا انتظار نہ کرے یہ نہ ہو کہ بادلوں کی اس گڑگڑاہٹ میں پگڑی والا اتنا مضبوط ہو جائے کہ کلغی دار، جناح کیپ کو صرف استعمال کرے اسے شیر والاحصہ نہ دے۔
ایسے میں بے کلغی، بے ٹوپی، بے پگڑی اور بے عمامہ، عام عوام کیا سیاسی موسم کی پشین گوئیوں میں کھوئے رہیں، حالات کے تیور دیکھتے رہیں، متوقع اورغیرمتوقع میں سے حقائق ڈھونڈتے رہیں، کہانی کےہر کردار کے بدلتے انداز کاجائزہ لیتے رہیں، بے یقینی میں رہیں، آگے کیا ہوگا بس اس کے بارے میں اندازہ لگاتے رہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مہذب ممالک میں ہر چیز طے ہوتی ہے۔ ہر کسی کو کلغی دار ہو یا بے پگڑی والا سب جانتے ہیں۔ سیاست میں الیکشن کب ہوں گے اور کس کس کا چانس زیادہ ہے۔ کیا ایسا موسم نہیں آسکتا کہ سیاسی مطلع صاف رہے۔ ہر ایک کو علم ہو کہ چاند کب چڑھے گا اور سورج کب؟ چاند کب گہنائے گا اور سورج کو گرہن کب لگے گا.....

تازہ ترین