• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پشتو کا ایک مقولہ ہے کہ ندیدے کے گھر بچے کی پیدائش ہوئی تو چوم چو م کر اس نے بچے کو مار دیا ۔ کچھ ایسا ہی سلوک ہم پاکستانی سی پیک کے ساتھ کررہے ہیں ۔میاں نوازشریف کہتے ہیں کہ سی پیک میر اکارنامہ ہے جبکہ زرداری صاحب کہتے ہیں کہ یہ پودا ان کا لگایا ہوا ہے ۔ حالانکہ یہ چینیوں کا لگایا ہوا پودا اور انہی کاکارنامہ ہے ۔ جب پاکستانی سیاستدانوں کے یہ دعوے اور بیانات دیکھتے ہیں تو چینی دوست ہنستے اور سرپیٹتے ہیں کہ کن ندیدوں سے واسطہ پڑا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ون بیلٹ ون روڑ کے تحت چینی سات اکنامک کاریڈورز بنارہے ہیں جن میں ایک چین پاکستان اکنامک کاریڈور بھی ہے ۔ پہلا کاریڈور نیوایروایشین لینڈ برج ہے جو مغربی چین سے روس تک جاتا ہے ۔ دوسرا چائنا منگولیا رشیا کاریڈور ہے جو منگولیا کے راستے مشرقی روس تک جاتا ہے ۔ تیسرا چائنا سینٹرل ایشیاکاریڈورہے جو سینٹرل ایشیاکے راستے ترکی تک جاتا ہے۔ چوتھا انڈوچائنا پننسلویلا کاریڈور جو جنوبی چائنا سے انڈونیشیا کے راستے سنگاپور تک جاتا ہے ۔ پانچواں چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور ہے جو مغربی چائنا سے گوادر تک جاتا ہے ۔ چھٹا بنگلہ دیش چائنا انڈیا میانمار کاریڈور ہے جو جنوبی چائنا سے انڈیا اور بنگلہ دیش کے راستے برما تک جاتا ہے جبکہ ساتواں میری ٹائم سلک روٹ ہے جو ساحلی چین کو سنگاپور اور ملائشیا کے راستے بحرہند اور بحیرہ عرب کو ملاتا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ دیگر چھ کاریڈورز پر بھی کیا آصف زرداری یا میاں نوازشریف نے چینیوں کو قائل کیا؟ ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ چینیوں کا خواب ہے جسے وہ شرمندہ تعبیر کررہے ہیں اور اس سے دیگر کئی درجن ممالک کی طرح پاکستان بھی مستفید ہورہا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیا کے کسی اور ملک کی قیادت اپنے ہاں کے اکنامک کاریڈورز کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے اور نہ اس پر سیاست کررہی ہے جس طرح کہ پاکستان میں کی جارہی ہے ۔سی پیک چینیوں کی تجویز تھی جس کے ایم او یو پر آصف علی زرداری کے دور میں دستخط ہوئے اور میاں نوازشریف کے دور میں اس پر کام کا آغاز ہوا۔ میاں نوازشریف اور ان کے پیارے احسن اقبال نے ایک تو یہ ظلم کیا کہ اس کا اتنا زیادہ ڈھنڈورا پیٹا کہ پاکستان اور چین دونوں کے دشمنوں کو اس کے آغاز سے قبل اس کی طرف متوجہ کیا ۔ دوسرا یہ ظلم کیا کہ اسے داخلی سیاست کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ تیسرا یہ ظلم کیا کہ بنیادی طور پر گوادر تک سڑک کے راستے رسائی کے پروجیکٹ کو انرجی کا پروجیکٹ بنا لیا اور انرجی کے پروجیکٹ بھی ہائیڈل کی بجائے کوئلے سے چلنے والے لگا دئیے ۔ چوتھا ظلم یہ کیا کہ ملکی اسٹرٹیجک ضروریات کی بجائے سیاسی اور علاقائی ضروریات کو مدنظر رکھا۔ زیادہ حق گلگت بلتستان ، بلوچستان اور فاٹا وغیرہ کا بنتا تھا لیکن اسے بنیادی طور پر چین اور پنجاب کا پروجیکٹ بنا دیاگیا۔ پانچواں ظلم یہ کیا کہ شفافیت کی بجائے سارے معاملات کواخفا میں رکھا اور غالب امکان یہ ہے کہ جب سی پیک کے سودوں کے اسکینڈلز باہر آئیں گے تو لوگ شاید پانامہ وغیرہ بھول جائیں گے ۔ چھٹا ظلم یہ کیا کہ چین کی اپنے پسماندہ علاقوں سے متعلق پالیسی کے بالکل برعکس منصوبوں اور روٹ کا رخ نسبتاً ترقی یافتہ علاقوں کی طرف موڑ دیا جس کی وجہ سے گلگت بلتستان ، بلوچستان اور فاٹا و پختونخوا کی محرومیاں دور ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئیں ۔ ساتواں ظلم یہ کیا کہ مغربی روٹ کی بجائے مشرقی روٹ کو ترجیح دینے سمیت تمام ترجیحات خود بنائیں اور اس پر چینیوں کو بھی مجبور کیا لیکن پاکستانی قوم کو یہ جھوٹا تاثر دیتے رہے کہ یہ سب کچھ چین کے کہنے پر ہورہا ہے ۔ جس کی وجہ سے چین جیسے غیرمتنازع دوست کاپاکستان میں متنازع بننے کا خطرہ پید ا ہوگیا ۔ لیکن آٹھواں اور سب سے بڑا ظلم یہ ڈھایا کہ سی پیک سے متعلق قوم سے مسلسل غلط بیانی کی گئی۔ مثلاً پہلے یہ کہا جاتا رہا کہ لاہور اورنج لائن سی پیک کا حصہ نہیں لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ عدالت میں پنجاب حکومت نے یہ موقف اپنایا کہ وہ اورنج لائن منصوبے کی تفصیلات اس لئے سامنے نہیں لاسکتی کیونکہ یہ سی پیک کا حصہ ہے ۔ سب سے زیادہ غلط بیانی مغربی روٹ سے متعلق کی گئی ۔ پہلی مرتبہ جب ’’جرگہ‘‘ میں یہ ایشو اٹھایا گیا تو وفاقی حکومت میں شامل مولانا فضل الرحمان نے بھی حکومت پر مغربی روٹ کی بجائے مشرقی روٹ کو ترجیح دینے کا الزام لگایا۔ پھر جب احتجاج بڑھ گیا تو وزیراعظم نے اے پی سی بلائی اور اس میں ہونے والے فیصلے کی رو سے قوم کے سامنے یہ غلط دعویٰ کیا کہ پہلے مغربی روٹ مکمل کیا جائے گا۔حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اصل کام مشرقی روٹ پر ہورہا تھا جبکہ ڈی آئی خان اور ژوب کی طرف صرف ایک سڑک بنانے پر آمادگی ظاہر کی گئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ روٹ وہی ہے جو موٹر وے کی صورت میں شاہرام قراقرم کو اسلام آباد ، پھر اسلام آباد کو لاہور اور پھر لاہور کو سکھر کے راستے گوادر تک ملاتا ہے ۔ اسی لئے ایبٹ آباد اور اسلام آباد کے مابین نئی موٹروے بنائی گئی جس کا افتتاح گزشتہ ماہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کیا لیکن حکومت نے اپنے اتحادیوں یعنی مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کے ساتھ مل کرڈی آئی خان ژوب کی سڑک کو سی پیک کے روٹ کا نام دیا اور مغربی کاریڈور کے نام سے اس کا افتتاح کیا ۔ پھر جب حکومت کی چوری پکڑی گئی اوراس کے خلاف احتجاج زورپکڑ گیا تو ایک بار پھر اے پی سی بلائی گئی۔ اس اے پی سی میں ملکی قیادت کو یہ جھوٹا تاثر دیا گیا کہ اصل روٹ مغربی ہوگا لیکن اعلامیے میں یہ مبہم الفاظ رکھے گئے کہ (There will be one route with multiple connectivities) ۔ پاکستانی سیاستدانوں کو یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ ون روٹ سے مراد مغربی روٹ ہے جبکہ چینیوں کے ساتھ یہ انڈراسٹینڈنگ تھی کہ ون روٹ سے مراد مشرقی روٹ ہے جبکہ ڈی آئی خان ژوب وغیرہ کنیکٹیوٹی ہوں گے ۔ اب جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہورہی ہے تو مشرقی روٹ موٹروے کی صورت میں مکمل ہورہا ہے جبکہ نام نہاد مغربی روٹ جو بنیادی طور پر ایک عام سڑک ہے مکمل نہیں ہوئی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگالیجئے کہ مغربی سڑک کو کاریڈور نہیں بلکہ ایک ضمنی سڑک کے طور پر سی پیک میں شامل کرنے کی تجویز اب ساتویں جے سی سی میں پیش کی گئی ہے ۔ یوں سی پیک کے مغربی روٹ یا کاریڈور نام کی چیز کل موجود تھی اور نہ آج موجود ہے ۔ پہلے تو نہ جانے ژوب ڈی آئی خان کے راستے سڑک کب مکمل ہوتی ہے لیکن اگر مکمل بھی ہوجائے تو مشرقی روٹ پر موٹروے کے ہوتے ہوئے کسی کا دماغ خراب ہے کہ جو اس سنگل سڑک پر سفر کا انتخاب کرے جس پر نہ تو سیکورٹی ہوگی، سہولتیں اور نہ اکنامک زونز۔ تاہم مغربی روٹ کے نام پر قوم کو جو دھوکہ دیا گیا اس گناہ میں مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے ساتھ ساتھ محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان بھی برابر کے شریک ہیں کیونکہ مولانا نے اپنے علاقے کے لئے سڑک اور دیگر مراعات کی خاطر حکومت کے اس دھوکے کو سندجواز فراہم کیا جبکہ محمود خان اچکزئی بھی سیاسی مصلحتوں کی خاطر قرانی آیات کے حوالے دے کر مسلم لیگیوں کی طرف سے پختونوں کو دھوکہ دینے کے عمل میں ان کا ہاتھ بٹاتے رہے ۔ اس گناہ میں عمران خان بھی برابر کے شریک ہیں ۔جنہوں نے آج تک سی پیک کو سمجھا اور نہ اسے اپنی ترجیحات میں شامل کیا ۔ جب پختونخوا ، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے حقوق کے تحفظ کا وقت تھا تو وہ دھرنے دے کر چینی صدر کے دورے کو ملتوی کرنے کا موجب بنتے رہے ۔ پھر پرویز خٹک نے سی پیک کو سمجھے بغیر اس پر غلط طریقے سے احتجاج شروع کیا اور پھر جب حکومت نے پرویز خٹک کے ساتھ خفیہ ڈیل کرکے ان کے نوشہرہ کے لئے سی پیک میں دوپروجیکٹ اور ان کی لین دین کا اختیار انہیں دے دیا تو وہ بھی وفاقی حکومت کے ہمنوا بن گئے۔
اس گناہ میں مشاہد حسین سید اپنے انداز میںشریک رہے جبکہ اسد عمر جنہیں پارلیمانی کمیٹی میں خیبرپختونخوا کا حق حاصل کرنے کے لئے پی ٹی آئی کی ٹیم کا سربراہ نامزد کیا تھا اپنے انداز میں شریک رہے۔سی پیک جس شکل میں ہو، جیسا بھی ہو ، پاکستان کے ہر خطے کے لئے مفید ہے جبکہ نقصان اس کا کسی حصے یا خطے کو نہیں لیکن افسوس کہ وہ جس طرح پاکستان کے تمام اسٹرکچرل مسائل کے لئے تریاق بن سکتا تھا، اس کا ویسے استعمال نہیں کیا گیا۔

تازہ ترین