• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ملک سو لٹیرے
چیئرمین نیب کی آخری وارننگ، بیوروکریسی اشاروں پر نہیں ناچ سکتی، سوال کریں تو کہتے ہیں سازش ہورہی ہے، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کا احتساب ہوگا، پاکستان 84ارب ڈالر کا مقروض پیسہ کہاں خرچ ہوا، ملک ایک مگر لٹیرے بہت ہیں۔
نیکی ہو برائی ہو اوپر سے نیچے آتی ہے، نیب کا آخری گیت آن ائر ہو چکا، مگر نوکر شاہی اس پر ناچ نہیں سکےگی، ہمارا آنگن اتنا سیدھا ہموار اور سادہ ہے کہ لٹیروں کے سہولت کار اس پر کھل کر حسب سابق اب ناچ نہیں سکیں گے نہ ہی یہ کہہ سکیں گے کہ آنگن ٹیڑھا ہے، بیوروکریسی کی رادھا کبھی کرشن کے اشاروں پر گنگا کنارے بہت ناچی مگر اب گھنگھرو اتار کرشن سے پوچھ رہی ہے، حضور! آپ کیلئے ناچی آپ نے اپنے ساتھ مجھے خوب نوازا اب ہم سے آپ کا دیا مانگ رہے ہیں،ہم تو کھا پی گئے آپ کے پاس کچھ بچا ہو تو ہماری ادائیگی بھی کردیں، ساہوکار، منشی کے بغیر چل سکتا، نہ منشیوں کی کمی نہ ساہوکاروں کی، نیب کا کہنا ہے کرشن بھی کئی رادھائیں بھی کئی، اب تو ہی بتا میں کدھر جائوں کیا کروں کہ میرے اکلوتے کرشن، بیوروکریسی بدنام ہوئی تیرے لئے، میرے پیارے کرپشن یہ تو نے کیا کیا 84ارب ڈالر سارے کے سارے خرچ کر ڈالے، تیرے بھیس اتنے سارے کرشن کہاں سے آئے، اس کےلئے تو کئی ملک درکار تھے، ایک بیچارا پاکستان اور منشی ساہوکار بیشمار، گو یا دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا، شاہ سےزیادہ شاہ کے وفادار ہی تو بھولے بادشاہ کو شہ دیتے ہیں، اس لئے جس نے آخری وارننگ دی، اس کے لئے بھی آخری وارننگ ہے کہ خود نہیں بدلنا چاہتا تو احتساب کے ادارے بدل ڈالے کہ یہ بھی اچھی خاصی سہولت کاری کرتے رہےہیں، یہ پچھلے دنوں کی بات ہے آج کوئی نیا سورج طلوع ہوااور سب نے دیکھا تو پھر کہیں گے کہ ہاں تم تو محتسب ہو، ابھی تک تو نیا موسم نئی ہوا پائپ لائن میں ٹونٹی کھول کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ احتساب واٹر آتا ہے یا نہیں۔
٭٭٭٭٭
شوگر ملز بمقابلہ گنے کے کاشتکار
شوگر ملز کے باہر گنے کے کاشتکاروں کا دھرنا ، روڈ بلاک، ناجائز کٹوتیاں انتہائی کم قیمت اور لوکل ایریا کے بجائے دیگر علاقوں سے گنے کی خریداری روکی جائے، یہ مطالبہ ہے بیچارے گنے کے کاشکاروں کا جو ہمارا منہ میٹھا کرتے ہیں اور ان کے منہ میں زہر اتارا جارہا ہے، کیا یہ زرعی ملک نہیں؟ کیا کاشتکاروں کا اپنی پیداوار پر بھی پورا پورا حق نہیں جس سے انہیں محروم کیا جارہا ہے، شوگر ملز کے مالکان کون ہیں؟ جو بھی ہیں لگتا ہے طاقتور ہیں، اور وطن کی مٹی کو سونا بنانے والوں کو اپنا کمی کیوں بنا رہے ہیں، کیا ان کو بھی کوئی پوچھنے والا ہے یا داورِ محشر کے ایکشن کا انتظار ہے؎
ظلم ہر رنگ دشمن کاشتکاراں نکلا
پوچھنے والا مسیحا بھی لٹیرا نکلا
صنعت کاروں نے تو ہمیں دو نمبر پراڈکٹس مہنگے داموں دیں،کاشتکاروں نے تو ایک نمبر فصلیں دیں، ان پر فصل بہار کب آئے گی؟ یا دو نمبریاں کرنے والوں ہی کی چاندی ہوگی، اپنے آنگن میں ایک پودا اگانا ہو تو انسان کو لگ پتا جاتا ہے مگر وہ جو زمین وطن سے ہمارے لئے رزق نکالتے ہیں ان کو ان کا معقول معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا، کیا ملک کو ترقی دینے کے طور طریقے ایسے ہوا کرتے ہیں، کہ؎
دہقاں ہے کسی قبر کا اُگلا ہوا مردہ
اگراس ملک کو زرعی نہیں رہنے دینا تو کاشتکاروں کو شہروں میں دھکیل دیں اور لینڈ مافیا کو کھلی چھٹی دیدیں کہ وہ روٹی اگانے والی زمینوں پر ہائوسنگ اسکیمیں تعمیر کریں، اور دکھا دیں کہ تعمیر میں تخریب کیسے کی جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭
یہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں؟
ہمیں سجھائی نہیں دے رہا کہ ہم پیمرا سے سوال کریں، کیبل مالکان سے پوچھیں یا قوم سے مطالبہ کریں، بہرحال ہماری آنکھ چھوٹی بڑی اسکرین پر جو دیکھ رہی ہے، آیا وہ ایک مفلوک الحال قوم کے لئے مفید ہے یا نہیں، ٹاک شوز پر تو جو جو تم بیزار ہوتی ہے سو ہوتی ہے، لیکن ڈراموں، فلموں، گانوں اور اشتہاروں میں جو مناظر دکھائے جاتے ہیں اور ہم جھینپ کر شرما کر یا ڈھیٹ بنکر دیکھتے ہیں وہ کیا ہمارے اس مخصوص کلچر سے لگا کھاتا ہے جس کی بنیاد پر ہم نے ایک الگ وطن بنایا تھا، ایک مفلس انسان کو آپ وہ کچھ دکھائیں کہ اس کے اندر وہ کچھ پانے کی خواہش بھڑک اٹھے، اور اس کے پاس حصول کے وسائل بھی نہ ہوں تو وہ کیا کرے گا، یہ ہمارے ملک میں پے در پے شرمناک واقعات سے صاف ظاہر ہے، یہ نہیں کہ بیرونی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا مگر وہاں ایک کھلا ماحول ہے، وہاں امیر غریب کا کمپلیکس بھی نہیں، اس لئے وہاں خواہشات نفسانی ہوں یا روحانی پوری ہو جاتی ہیں، اور کوئی معترض نہیں، وہاں لوگ گناہ بھی اپنے اختیار سے کرتے ہیں نیکی بھی اپنی مرضی سے، ہمارے ہاں گناہ کا کرنا بھی ایک جبر اور نہ کرنا بھی جبر بن کر رہ گیا ہے، گویا ہماری نیت نیک و بد دونوں قسم کے کاموں کیلئے درست نہیں، مقابلہ بازی کی سوچ بھی ہم سے بہت کچھ کرالیتی ہے، اور پھر یہ کہ جو اونچے درجے والے جنہیں بڑے لوگ کہا جاتا ہے وہ کچھ بھی کریں آزاد ہیں، اور عام غریب آدمی مجبور محض، ہم سب، ہمارے اداروں کو گورننس کو اور بالخصوص پیمرا کو ہماری آنکھوں کی حفاظت کرنا ہو گی ۔
٭٭٭٭٭
اوہدے کوجھے وی سونہڑے
٭...بلاول بھٹو:پہلے ہی کہہ دیا تھا ایم کیو ایم کا بو کاٹا جلد ہو جائے گا،
آپ کی پتنگ کس کے آنگن میں گری پڑی ہے؟
٭...چیئرمین نیب:پوچھا جائے تو کہتے ہیں سازش ہو رہی ہے،
ہر سازش کی دلیل سازش ہوتی ہے۔
٭...ایم کیو ایم کا مستقبل کیسا ہوگا؟
ماضی جیسا ہوگا۔
٭...حسین حقانی کو بھی چھیڑ دیا گیا ہے،
چھیڑ ’’خوباں‘‘ سے چلی جائے اسدؔ
جیہدے گھر دانے اوہدے کوجھے وی سونہیڑے
٭...نیب چیئرمین: 84ارب ڈالر کہاں خرچ ہوئے،
آپ نے جے آئی ٹی رپورٹ نہیں پڑھی؟

تازہ ترین