• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کتنی جدوجہد کی تھی۔
کتنی تپتی دوپہروں میں ریگل چوک کراچی۔ چیئرنگ کراس لاہور۔ جناح روڈ کوئٹہ۔ قصہ خوانی پشاور۔ کمیٹی چوک پنڈی۔ گاڑی کھاتہ حیدر آباد۔ کہاں کہاں سے امپورٹڈ آنسو گیس برداشت کرنے آتے تھے۔
کیسی کیسی نوکدار لاٹھیاں بچوں۔ بوڑھوں اور جوانوں نے کھائی تھیں۔
بدبودار حوالات کی سلاخیں تھامے باہر کی دنیا حسرت سے تکا کرتے تھے۔ جیلوں کی کھولیوں سے کھڑکی بھر آسمان دیکھتے تھے۔ کچے گھروں سے روز اس آرزو کے ساتھ نکلتے تھے کہ اس سرزمین میں آئین کا نفاذ ہو۔ عدلیہ اپنی مرضی سے فیصلے کرسکے۔ فوج اپنی بیرکوں میں واپس چلی جائے۔ میڈیا پر لکھنے بولنے کی مکمل آزادی ہو۔ کسی ٹریبونل میں معزز جج کسی باوردی بریگیڈیئر کے ساتھ نہ بیٹھتے ہوں۔ پاکستانیوں کو گھر کی دہلیز پر انصاف ملے۔ ساری بنیادی شہری سہولتیں گلی محلّے میں میسر آجائیں۔
اب جب میڈیا پر بہار آئی ہوئی ہے۔ عدلیہ چھائی ہوئی ہے۔ فوج صرف ٹویٹ کرنے بیرکوں سے باہر آتی ہے۔ حوالات میں سیاسی تو کیا جرائم پیشہ بھی نہیں ہیں۔ جیلیں سیاسی لیڈروں کی شکل دیکھنے کو ترس گئی ہیں۔ اہل نااہل سب بول رہے ہیں۔ ہزاروں کرسیوں والے جلسے روز کہیں نہ کہیں ہوتے ہیں۔ عطاء الحق قاسمی کے سارے گامے ماجھے اسلم گورداسپوری کے دینو، مہرو وزیر مشیر بنے ہوئے ہیں۔ اس وقت بھی آرزو بے چین رہتی ہے۔ تمنّائیں لاوارث۔
موجودہ وزیراعظم۔ سابق وزیراعظم۔ سابق صدر۔ وفاقی وزیر۔ صوبائی وزیر سب بول رہے ہیں۔ اخبار کے صفحے ان کے بیانات سے بھرے ہیں۔ کوئی چینل آن کریں تو کوئی نہ کوئی لیڈر کچھ نہ کچھ کہتا دِکھائی دیتا ہے۔ تجزیہ کاروں کی ایک فوج ظفر موج ہے۔ جن میں سابق جنرل۔ بریگیڈیئر۔ ایئر مارشل۔ ایڈمرل بھی ہیں۔ سینئر وکیل بھی۔ جج بھی۔ مذہبی رہنما بھی۔ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ سب بھول گئے ہیں اربوں ڈالر کے قرضوں کو۔ جو ہم سب کو دینے ہیں۔ سود کے ساتھ ادا کرنے ہیں۔ ہمارے کسانوں ہاریوں کی سخت محنت کے کمائے روپے اس ادائیگی کی نذر ہورہے ہیں ان قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لئے ہم مزید قرض لے رہے ہیں۔ اپنی قیمتی بلڈنگیں۔ شاہراہیں۔ فصلیں گروی رکھ رہے ہیں۔ ان حقائق کا ذکر تقریروں میں ہوتا ہے نہ تحریروں میں۔
ہم بھول گئے ہیں ریکو ڈک کو۔ بے بہا خزانے کو۔ جہاں لاکھوں ٹن تانبا۔ لاکھوں ٹن لوہا۔ جہاں کروڑوں اونس سونا ہمارا انتظار کررہا ہے۔ ہم فراموش کرچکے ہیں کہ یہاں سے ہم روزانہ کئی ملین ڈالر کما کر قرضوں کا بوجھ کم کرسکتے تھے۔ آپس کی چپقلش اور لالچ میں کئی سال پہلے اس خزانے کا منہ بند کرکے ہم بیٹھ گئے ہیں۔ ہم پر 1145 بلین ڈالر کی پینلٹی لگ چکی ہے۔ اس مقدمے میں پیروی کے لئے 1545 ملین ڈالر پاکستان خرچ کرچکا ہے۔ صرف ایک سابق چیف جسٹس اور ایک سابق چیف منسٹر کے غلط فیصلوں کے باعث یہ خزانہ ہمارے کسی کام نہیں آرہا ہے۔
اتنے بڑے المیے۔ اتنے بڑے نقصان کا ذکر سابق وزیراعظم کی تقریر میں ہوتا ہے نہ موجودہ وزیراعظم کی۔ سابق صدر اس کے حوالے سے لب کھولتے ہیں نہ آئندہ وزیراعظم بننے کے دعویدار اپنے کسی بھاشن میں اس کا حوالہ دیتے ہیں۔ تجزیہ کار بھی اس خزانے کو اہمیت نہیں دیتے۔
ہم بھول گئے ہیں کہ ہمیں اپنی ضرورت کا 80 فیصد تیل درآمد کرنا پڑتا ہے۔ ہمارا قیمتی زرمبادلہ اس کی نذر ہوجاتا ہے۔ جن ملکوں کے پاس اپنا تیل ہے۔ اپنے ذخائر ہیں۔ وہ بھی متبادل توانائی کی تلاش میں ہیں۔ نئے نئے تجربے کررہے ہیں۔ لیکن ہمارے کسی سیاسی رہنما۔ کسی وزیر۔ مشیر۔ کسی تجزیہ کار کو یہ فکر نہیں ہے کہ ہمارے زرمبادلہ کا کثیر حصّہ تیل ہڑپ کررہا ہے۔ اس انتہائی مہنگے تیل کے استعمال میں بھی ہم کسی احتیاط کے قائل نہیں ہیں۔ ٹریفک جام میں لاکھوں کا پیٹرول بلاکوئی مسافت طے کیے پھنکتا رہتا ہے۔
کسی تقریر۔ کسی تحریر میں کالا باغ ڈیم یا بڑے ڈیم کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا ہے۔ پانی کے مسئلے پر بڑے بڑے ماہرین بول رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کو فکر ہے۔ پانی کے ذخائر کم ہورہے ہیں۔ آب و ہوا تبدیل ہورہی ہے۔ امریکہ روس نیٹو چین CLIMATE CHANGE پر مباحثے کررہے ہیں۔ سب کو ماحولیات کی فکر ہے۔ پینے کا صاف پانی ہمارے کروڑوں ہم وطنوں کو میسر نہیں ہے۔ آلودہ پانی سے ہیپا ٹائٹس اور کیا کیا بیماریاں لاحق ہورہی ہیں۔ ڈیم نہ ہونے سے لاکھوں کیوسک پانی سمندر میں گرانا پڑتا ہے۔ پانی سے بننے والی سستی بجلی سے ہم محروم ہیں۔ یہ زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ لیکن ہم بادشاہ لوگ ہیں۔ ایک دوسرے کی ذات ہمارا بڑا مسئلہ ہے۔
بلوچستان۔ سندھ میں مائوں کے بیٹے باپوں کے بڑھاپے کے سہارے نوجوان لاپتہ ہورہے ہیں۔ یہ جیتے جاگتے انسان ہماری تحریر تقریر کا موضوع نہیں بنتے۔
دنیا بھر میں جمہوریت کی بنیاد مقامی حکومتیں ہیں۔ گلی محلّے کی صفائی۔ فٹ پاتھ۔ پینے کے پانی کی فراہمی۔ گندے پانی کی نکاسی بنیادی جمہوری اداروں کے ذمّے ہوتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں مقامی حکومتوں کے اختیارات صوبائی حکومتوں نے چھین لئے ہیں۔ میونسپل ادارے نام کو موجود ہیں۔ ان کے پاس فنڈز ہیں نہ اختیار۔ عام پاکستانی ان سہولتوں کے لئے پریشان ہیں۔ لیکن ہم ان اداروں کو بھول گئے ہیں۔
ہم اقوام متحدہ کے ان 189 ممالک میں سے ہیں جنہوں نے 2000ء میں دوسرے ہزاریے (ملینم) کے اہداف کے حصول پر دستخط کیے ہیں۔ 2015ء تک۔ تعلیم۔ صحت۔ پانی۔ سماجی تحفظ۔ شہری بہبود۔ ایڈز۔ پولیو۔ ہیپاٹائٹس کے شعبوں میں اپنے اپنے باشندوں کو مکمل سہولتیں فراہم کرنے کا عہد کیا تھا۔ بجٹ مختص کیے تھے۔ دنیا کے امیر ممالک نے بھی ہمیں امداد فراہم کی تھی۔ ہمیں غربت کا خاتمہ کرنا تھا۔ صنف اور جنس کے اعتبار سے مساوی مواقع پیدا کرنا تھا۔ ہم ان سب اعداد و شمار کو بھول گئے۔ اس میں رعایت 2018ء تک تھی۔ وہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ کسی سیاسی پارٹی یا میڈیا کو ان اہداف کی فکر نہیں ہے۔
ہماری جغرافیائی حیثیت ہماری بہت بڑی طاقت ہے۔ کیا کسی تقریر میں اس کا ذکر آتا ہے۔ اس کے حوالے سے کچھ کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔
ہم تو اپنی بہت بڑی توانائی اپنی 60فیصد نوجوان آبادی کی بہبود کو بھی قابل ذکر نہیں سمجھتے ہیں۔ ساڑھے 6 کروڑ نوجوان کسی بھی آبادی کے لئے بہت بڑا اثاثہ ہوتے ہیں۔ ہم انہیں صرف جلسوں میں کرسیاں رکھنے اٹھانے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ ان کے کندھوں پر بیٹھ کر پارلیمنٹ میں داخل ہوجاتے ہیں۔ بس۔ ان کی تربیت بہبود کے لئے کسی منصوبے کا حوالہ کسی تقریر میں تجزیے میں نہیں آتا۔
ہم بھول جاتے ہیں ان حقائق کو۔ ان اثاثوں کو جو ہمارے مستقبل کے تحفظ اور استحکام کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ ہم ایسی لڑائیوں اور لفاظیوں میں مصروف رہتے ہیں جو ہمیں اور کمزور کرتی ہیں اور تقسیم کرتی ہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے۔

تازہ ترین