• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرمد کے آبا ئواجداد کا تعلق آرمینہ سے تھا اور وہ گوالیار میں رہتے تھے مغل بادشاہ شاہجہان کے بیٹے دارا شکوہ کے ساتھ ان کی بہت دوستی تھی۔ اورنگ زیب نے اپنے دورِ اقتدار میں انہیں مسجد میں آکر نماز پڑھنے کی درخواست کی تھی۔ اس زمانے میں ہر مسلمان پر فرض تھا کہ وہ حکومت کی تسلیم شدہ مساجد میں آکر نماز ادا کرے۔ سرمد اپنی دنیامیں مست ایک ایسے مجذوب آدمی تھے جن کا ہر لمحہ عبادتِ الٰہی میں گزرتا تھا۔ان کے نزدیک وہ کسی خاص وقت اور خاص جگہ پر عبادت کے پابند نہیں تھے۔ ویسے بھی ان کا ہر لمحہ ، ہر سانس، ہر مقام پرعبادت اور ریاضت سے سرشار رہتاتھا سووہ شاید بادشاہ کے فرمان کو بھول گئے یا شایدانہوں نے مسجد میں آکر نماز پڑھنے سے انکار کردیا۔ اس جرم کی پاداش میں انہیں جاں سے گزرنا پڑااور اس میں کوئی شک نہیں کہ سرمد جیسے لوگوں کےلئے دنیاوی قوانین بازیچہ اطفال سے زیادہ نہیں ہوتے ۔کہتے ہیں کہ جب ان کی گردن جسم سے جدا ہوگئی تھی تو اس وقت بھی ان کی انگلی اپنے لہو میں ڈوب کراللہ کا نام لکھتی چلی جارہی تھی۔ ان کا سرکے بغیر دھڑ،کئی قدم چلا تو ان کے مرشد جنہیں وہ”ہرے بھرے صاحب“ کہتے تھے انہوں نے سرمد سے کہا ”اپنے راز کو فاش مت کر“تو ان کا سربریدہ بدن مردہ حالت میں زمیں پر گر پڑا۔
سر مدکو اپنے زمانے کے لوگ اتنا زیادہ مانتے تھے کہ جب انہیں شہید کردیا گیا تو ہر شخص کی زبان پریہی آیا کہ اب مغلیہ خاندان کا اقتدار زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا ۔ اس وقت مغلیہ سلطنت اپنے عروج پر تھی اور بظاہر کہیں اس کے زوال کا کوئی جواز نظر نہیں آتا تھا ۔ سرمد کے ماننے والے اس وقت بھی یہی کہتے تھے اور آج بھی یہی کہتے ہیں کہ مغلوں کے زوال کا پہلاسبب سرمد کا قتل ہے ۔روحانی بادشاہت کے مالک مرنے کے بعد بھی زمینی بادشاہت کو الٹ دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ سرمد کی قبر آج بھی سرخ ہے ان کے ماننے والوں نے علامت کے طور پر اس قبر کارنگ سرخ رکھا ہوا ہے۔ سرمد کی قبر کے ساتھ ایک سبز رنگ کی قبر ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سرمد کے مرشد کی قبر ہےاور کچھ لوگوں کے خیال میں وہ ایک صوفی بزرگ کمالی ہیں جو ایک اور صوفی بزرگ جمالی کے ہمزاد تھے ۔جمالی کی قبر بھی وہیں موجود ہے۔
دراصل جولوگ روحانی طور پر اس باطنی دنیا سے آشنا نہیں جہاںزمان ومکاں کے اسرار گردش میں ہوتے ہیں ا نہیں ایسے اشخاص کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتاجو روحانی طور پر بلندیوں پر پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ اِن مقدس دیوانوں کا روحانی راستے پر الوہی سفر اکثرظاہری اور مروجہ رویوں سے متضاد ہوتا ہے اور ان کی مقدس زندگی کو عام اقدار اور حقیقت پسند رویوں کی شدید مخالفت کا کچھ احساس نہیں ہوتا ۔ وہ خود ملامتی میں اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں ان کی زندگی کا اولین مقصد اپنی ذات کو فنا کرنا ہوتا ہے کیونکہ جب تک کوئی مکمل طور پر اپنی نفی نہیں کرلیتا وہ اس وقت تک اثبات کی اس منزل تک نہیں پہنچ سکتا جو راہِ سلوک کے ہر مسافر کا مقصدِ حیات ہوتی ہے اورتاریخ نے ہمیشہ یہی ثابت کیا ہے کہ بادشاہوں کی زر خریدعدالتوں کے فیصلے غلط تھے۔۔ معاملہ چاہے منصور حلاج کا ہویا سرمد کا۔تاریخ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ وہ سچائی پر تھے۔ جب اس طرح کے لوگ کسی تہذیب میں قتل ہوتے ہیں تو پھر وہ تہذیبیں زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔ مغل تہذیب جو اپنے دور میں ایک بہت بڑی تہذیب گردانی جاتی تھی۔ سرمد کے قتل کے بعد کتنی کم مدت میں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ختم ہو گئی۔ مجھے یہ بات کہتے ہوئے خوف محسوس ہورہا ہے کہ کہیں ہماری تہذیب کے خون سے لتھڑے ہوئے ہاتھ ہمیں بھی کسی ایسے ہی خوفناک انجام سے دوچار نہ کردیں ہم جو روز دوچار بے گناہ اور دیتے ہیں ۔کہیں رائو انوار کو بندوق بنا کر توکہیں عابد باکسرکو آلہ قتل بنا کر ۔کہیں لاہور کی آدھی پولیس کو گلو بٹ بنا کر ۔عمران خان نے آٹھ سو ستر افراد کے قتل کا الزام موجودہ حکومت پر لگایا ہے کہ انہیں ماورائے عدالت قتل کیا گیا ۔ بے شک سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک شخص کے قتل پر پھانسی دے دی گئی تھی مگر وہ اور معاملہ تھا میں جانتا ہوں کہ بادشاہوں کو عدالتوں میں سزائیں نہیں ہوا کرتیں ۔قاضی کے بلانے پر کبھی کبھار کوئی بادشاہ اس کے سامنے پیش ہو بھی جاتا ہے مگرصرف اپنا نام تاریخ کے صفحات میں درج کرانے کےلئے ۔اس حوالے سے ہمارے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا کردار بڑا تاریخ ساز ہے وہ سپریم کورٹ کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی میں بھی پیش ہوئے تھے اب پھر نیب نے انہیں طلب کیا ہے ۔دیکھئے کیا فیصلہ کرتے ہیں ۔ذرائع تو یہی کہہ رہے ہیں وہ نیب کی عدالت میں پیش ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ عوامی انداز میں نیب کی عدالت میں جائیں یعنی اپنے ساتھ چالیس پچاس ہزار افراد کا جلوس لے کر ۔دوسری طرف چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال اور میاں شہباز شریف کے درمیان بھی ایک اخباری جنگ جاری ہے جو کسی بھی وقت اپنی شکل بدل سکتی ہے ۔انہیں عابد باکسر کے بیان پر گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ عابد باکسر کایہ بیان ریکارڈ شدہ ہے کہ میں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے کہنے پر دو افراد کو قتل کیا تھا ۔قصور سے بھی کچھ پولیس آفیسر جعلی پولیس مقابلے کرانے کے جرم میں گرفتار کئے جا چکے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان یقیناً عمران خان کی اپیل پراس سلسلے میں ضرور کوئی کمیشن بنائیں گے کیونکہ ماورائے عدالت قتل دراصل عدالتوں پر حکومتی عدم اعتماد کی وجہ سے ہوا کرتے ہیں۔ بہر حال آٹھ سو ستر افراد کے قتل کا معمہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سوا کوئی اور حل نہیں کر سکتا۔کسی معاشرے میں اتنے بے گناہ افراد کے قتل پرکوئی بھونچال آ سکتا ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی معاشرہ ابھی اتنا بےحس نہیں ہو سکتا۔

تازہ ترین