• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پال کینیڈی برطانیہ کے معروف مورخ اور دانشور ہیں ۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور ان کی تمام کتابوں کی ریکارڈ فروخت ہوئی ہے ۔ ’’ عالمی طاقتوں کا عروج و زوال ‘‘ نامی کتاب بہت مقبول ہوئی ۔ بین الاقوامی تعلقات ، اقتصادی طاقت اور عظیم حکمت عملی کو تاریخی تناظر میں بیان کرنے اور سائنسی بنیادوں پر مستقبل بینی میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے ۔ انہوں نے 1993 ء میں ایک کتاب بعنوان ’’ 21 ویں صدی کے لئے تیاری ‘‘ لکھی تھی ۔ آج 21 ویں صدی کے دوسرے عشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ اس کتاب میں ہونے والی پیش گوئیوں کو درست ثابت کر رہا ہے ۔ پال کینیڈی نے اسی کتاب میں 21 ویں صدی کو چین کی صدی قرار دیا تھا ۔ دیگر باتوں کے علاوہ انہوں نے یہ بھی پیشگوئی کی تھی کہ دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وجہ سے لوگ اطلاعات کی یلغار میں ہوں گے لیکن بہت بے خبر ہوں گے ۔ قومی اور کثیر القومی تجارتی اداروں کے ساتھ ساتھ میڈیا کے ادارے بھی مقامی دائروں میں محدود ہوجائیں گے۔ اس کے لئے انہوں نے ’’ Niche ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی، جس کا مطلب دیوار کے اندر کا خلا ہے ۔ پال کینیڈی نے یہ بھی بتایا تھا کہ اطلاعات کی اس یلغار کو غیر مرئی قوتیں کنٹرول کر رہی ہیں اور اظہار کی آزادی کسی بڑی پابندی کے تابع ہو گی۔ گلوبلائزیشن کا تصور ختم ہو جائے گا اور پہلے کی طرح لوگ دنیا کے حالات سے واقف نہیں ہوں گے ۔
آج کل یمن میں جو کچھ ہو رہا ہے ، اس کے بارے میں ہماری بے خبری پر مجھے کوئی حیرت نہیں ہے ۔ ایک زمانہ تھا ،جب ٹی وی چینلز بھی نہیں ہوتے تھے ، لوگ علاقائی اور بین الاقوامی حالات سے زیادہ باخبر ہوتے تھے ۔ ہمارے ٹی وی چینلز میں علاقائی اور بین الاقوامی خبروں کا تناسب دو فیصد بھی نہیں ہے ۔ بیرون پاکستان کی ان خبروں کو زیادہ اہمیت ملتی ہے ، جنہیں مخصوص مفادات رکھنے والی غیر مرئی طاقتیں زیادہ اجاگر کرنا چاہتی ہیں ۔ ان طاقتوں کے مفاد میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ یمن میں پیدا ہونے والے خوف ناک انسانی بحران کو ’’ ہاٹ نیوز ‘‘ میں تبدیل ہونے دیں ۔ یمن میں جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ صرف انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس میں بیان کیا جا رہا ہے اور ان رپورٹس کی تیاری کے لئے ان تنظیموں کو پیسے ملتے ہیں ۔ بس صرف ریکارڈ میں کچھ چیزیں آ رہی ہیں لیکن عالمی برادری کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ وہاں قیامت صغریٰ برپا ہے ۔ ہم یمن میں ہونے والی جنگ کے فریقین کے بارے میں کھل کر اپنی رائے نہیں دے سکتے کیونکہ ’’ اظہار کی آزادی کسی بڑی پابندی کے تابع ہے ۔ ‘‘ وہاں سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی افواج یمن کے صدر منصور ہادی کی وفادار فوج کے ساتھ مل کر مقامی حوثی قبائل کے ساتھ جنگ کر رہی ہیں ۔ اس جنگ کے اسباب کیا ہیں اور اس کے مشرق وسطی اور عالم اسلام سمیت پوری دنیا کے امن پر کیا اثرات پڑیں گے ؟ یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن اس وقت جنگ کی تباہ کاریوں سے روزانہ انسانی المیے جنم لے رہے ہیں اور یہی سب سے زیادہ تشویش ناک بات ہے ۔ تقریباً دو کروڑ آبادی کا یہ ملک مکمل طور پر جنگ کی آگ کی لپیٹ میں ہے ۔ 25 مارچ 2015 ء کو اتحادی افواج نے حوثیوں کے علاقوں پر حملے شروع کیے تھے اور اب تک اس جنگ میں ہزاروں بے گناہ شہری مارے جا چکے ہیں ۔ ان میں 3 ہزار سے زیادہ معصوم بچے ہیں ۔ 30 لاکھ لوگ بے گھر ہیں ۔ 20 لاکھ بچے اسکول نہیں جا سکتے ہیں اور وہ تعلیم سے محروم ہیں ۔ ملک کی اکثریتی آبادی خوراک کی قلت کا شکا رہے ۔ اسپتالوں میں دوائیں اور جان بچانے والی دیگر ضروری اشیاء موجود نہیں ہیں ۔ جنگ کی وجہ سے دواؤں اور خوراک کی فراہمی بھی ممکن نہیں رہی ہے ۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے کارکن متاثرہ لوگوں تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں ۔ خود اقوام متحدہ نے یمن میں پیدا ہونے والے انسانی بحران ، جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق رپورٹس تیار کی ہیں ۔ دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس حوالے سے کام کیا ہے اور ان رپورٹس میں صورت حال کو انتہائی خوف ناک قرار دیا ہے ۔ خوراک اور دوائوں کی کمی کی وجہ سے شہریوں خاص طور پر بچوں کی اموات ہو رہی ہیں ۔ ان اموات کا بڑا سبب قحط اور ہیضہ کی وبا ہے ۔ انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے ۔ معصوم شہریوں کے گھروں ، اسپتالوں اور اسکولوں کو فضائی حملوں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ غربت میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے ۔ خوف ، بے یقینی اور مایوسی کی فضا ہے ۔ لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ اگلے روز عالمی ادارہ صحت میں اتحادی افواج سے اپیل کی کہ خوراک اور دواؤں کی فراہمی کے لئے راستے کھول دیئے جائیں اور امدادی کارکنوں کو متاثرہ لوگوں تک پہنچنے دیا جائے لیکن اس اپیل پر کوئی عمل نہیں ہوا ۔ شہری آبادیوں پر حملے ہو رہے ہیں اور ایک ایک حملے میں سینکڑوں المیہ داستانیں جنم لیتی ہیں ۔ یمن کے شہر المخا (Al-Mukha) میں ایک فضائی حملے میں لاشوں کے ڈھیر لگ گئے اور کچھ لوگ ایسے بھی بچ گئے، جن کے خاندانوں کے آٹھ آٹھ دس دس افراد مارے گئے۔
21 ویں صدی میں بے گناہ لوگ بارود ، بھوک اور بیماری سے مر رہے ہیں۔ پوری دنیا بے حسی کا شکار ہے ۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں یمن کے مسئلے کو فرقہ واریت کے تناظر میں تو دیکھا گیا ہے لیکن انسانیت کے تناظر میں نہیں دیکھا جا رہا اور حقیقتاً یہ فرقہ ورانہ ایشو نہیں ہے ۔ یہ ایک بہت بڑی بین الاقوامی سازش ہے ، جس کا شکار پورا عالم عرب ہے اور عالمی جنگیں اب مقامی تنازعات کی صورت میں لڑی جا رہی ہیں۔ کہیں قوموں ، کہیں لسانی گروہوں، کہیں مذہبی اور فرقہ ورانہ گروہوں کے درمیان تنازعات کو بھڑکا کر عدم استحکام کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے اور پھر اس سے عالمی طاقتوں کے مفادات کے لئے حالات سازگار بنائے جاتے ہیں۔ دنیا کو یمن کے مسئلے پر اٹھ کھڑا ہونا چاہئے اور فوری طور پر اس انسانی بحران کے خاتمے کے لئے آواز اٹھانی چاہئے۔ ورنہ مقامی تنازعات (conflicts) ہر جگہ پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں۔

تازہ ترین