• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ طے ہے کہ سب پاکستا نیوںکے یکساں حقوق ہیں، جو آئین پاکستان نے متعین کئے ہیں۔ اس امر کا فیصلہ قانون ہی عدالتوں کے ذریعے کرتا ہے کہ کون مجرم ہے، یا پھرریاست کے خلاف اقدامات کا مرتکب .....اس ضابطے کے ماسوا نہ تو کوئی کسی کو غدار قرار دے سکتا ہے اور نہ ہی آئین نے کسی اور کو حُب الوطنی کے اسناد کا ٹھیکہ تفویض کیا ہے۔ اب آپ پاکستانی تاریخ ملاحظہ کریں تو یہاں حکمران سے لے کر ایک مولوی یا صحافی یا آج کل کے دنوں میں ایک اینکر تک آئے روز غداری و حُب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان سے دراز ہے۔ ابن الوقت ہر دور میں اسلام اور نظریہ پاکستان کے نام پر حساب کتاب میں ڈنڈی مار کر حب الوطنی کے جامے میں درحقیقت پاکستان کو نقصان پہنچانے کا ارتکاب کرتے رہے ہیں۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ غدار وہ ہوتے ہیں جو اپنے حق کی بات سو فیصد درست شواہد کی بنیاد اور اپنے ملک و وطن کے آئین و ضابطوں کے تحت کرے یا وہ ہوتے ہیں جو محض اپنے شخصی ،گروہی و جماعتی مفاد کی خاطر ملک و ملت کو اس سچ کے خلاف واویلے پر آمادہ کرکے انتشار و ملکی زوال کا سبب ٹھہرے؟ لیکن یہاں گنگا الٹی بہتی ہے!قیام پاکستان کے بعد ہم نےparity(برابری) کا اصول بنایاکہ مشرقی اور مغربی پاکستان کو برابر حصہ ملے گا، بنگالیوں نے کہا ہم 56اور آپ 44فیصد ہیں، ہمارا حق زیادہ بنتا ہے ، ہم نے کہا نہیں،مان لو کہ 56اور44برابر ہیں وہ خاموش ہوگئے، (حالانکہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پنجاب نے یہ کہتے ہوئے 62فیصد حصہ لے لیا کہ پنجاب کی آبادی زیادہ ہے۔پھر برابری کا اصول ہوا ہوگیا۔خیر1970کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے 300نشستوں میں سے 160اور پیپلز پارٹی نے 81نشستیں حاصل کیں۔ مشرقی پاکستان کے بھائیوں نے کہاکہ جمہوری اصولوں کے تحت اقتدار عوامی لیگ کو منتقل کیا جائے۔ ہم نے کہا نہیں 81نشستیں 160سے زیادہ ہیں۔ وہ باشعوربنگالی ایک عرصے خاموش تھے،سو اب کہنے لگے یہ کیسے ممکن ہے! سو ہم نے چلانا شروع کردیا، بنگالی غدار ہیں ،پاکستان کو نہیں مانتے ....حالانکہ بنگالی وہ تھے جن کے دارالحکومت ڈھاکہ ہی میں 1906میں مسلم لیگ قائم ہوئی تھیں۔ یہ وہی بنگالی تھے جنہوں نے 1937کے انتخابات میں مسلم لیگ کو 40نشستوں پر کامیابی دلائی تھی جبکہ مسلم لیگ پنجاب سے صرف ایک نشست لے سکی تھی اور سندھ اور سرحد (پختونخوا) سے اس کا ایک بھی امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔ لیکن نام نہاد محب وطنوں نے اپنے اقتدار کے لیے پاکستان کے خالق بنگالیوں سے چھٹکارا ناگزیر سمجھتے ہوئے انہیں بالآخر غدار بنا ہی ڈالا۔ ملک دو لخت ہوا۔ہمارا مشرقی پاکستان، ہندوستان کا دوست بنگلہ دیش بن گیا، لیکن ہم نے بڑے فخر سے کہا ’’شکر ہے پاکستان بچ گیا....‘‘
افسوس صد افسوس ہمارے اختیار مند آج تک ہمیں غداری اور حب الوطنی کی غلط تشریحات و توضیحات پیش کررہے ہیں اور ہم انہیں درست جان کر ان پر لبیک کہتے چلے آئے ہیں۔ یوں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک و ملت کو دن دیہاڑے لوٹنے اور ملکی خود مختاری کا سودا کرنےوالے غدار ہیں یا وہ خود غدار ہیں جو آئین اور قانون کے اندر اپنا جائز حق مانگ رہے ہیں۔ یہ سوال ہم نے اس خاطر اُٹھایا ہے کہ پختون قومی جرگے کے بینرتلےچند مطالبات کیلئے محسود قبیلے کے ہزاروں لوگ گزشتہ کئی روز سے اسلام آبادمیں سخت سردی میں بیٹھےہیں لیکن حکمرانوں کی جانب سے کوئی عملی پیش رفت نہیں ہورہی۔یہاں تک کہ آزادئی اظہار کا دعویدار میڈیا بھی کوریج کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ کئے ہوئے ہے۔سوال یہ بھی پیدا ہوتاہےکہ ایسا کیوں ہے؟کیا یہ پاکستانی نہیں یاان کےمطالبات غیر آئینی ہیں۔آئیے مطالبات دیکھتے ہیں۔ نقیب اللہ شہید کے ماورائے عدالت قتل میں ملوث رائو انوار سمیت تمام ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ محسودوں کے علاقے سے لینڈ مائینز صاف کی جائیں، جن سے اب تک 78بچے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ جب بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوتا ہے، بے قصور لوگوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، مجرم اور بے قصور میں فرق کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ محسودوں کو اپنے علاقے میں آنے جانے کے لیے وطن کارڈ جاری کئے گئے ہیں،جن کے پاس یہ کارڈ نہیں ہوتے انہیں اپنے آبائی گھر و علاقے میں جانے نہیں دیا جاتا بلکہ اگر وہ کسی وجہ سے یہ کارڈ حاصل نہیں کر پاتا تو بے قصور ہونے کے باوجود اسے گرفتاری کا خدشہ رہتا ہے، ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ وطن کارڈ سسٹم ختم کرکے قومی شناختی کارڈ کے ذریعے آنے جانے کی سہولت فراہم کی جائے.....اب آپ بتائیں کہ اس میں کون سا مطالبہ آئین یا ریاست کے خلاف ہے۔ہاں اس جرگے میں لگنے والے بعض نعروں پر اعتراض کیا جاسکتاہے، جب کسی کی شنوائی نہیںہوتی توایسے مواقع پر انسان کی فطرتِ ثانیہ ردعمل کا مظاہرہ کرنے لگتی ہے۔لیکن اس کے باوجود جرگے کا اہتمام کرنےوالےاتنے پُرامن ہیں کہ وزیرستان سے اسلام آباد کے پڑائو تک ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا۔چونکہ مقررین میں مختلف الخیال لوگ شامل ہوتےہیں ، اس لئے بعض اوقات وہ ایسی بات کہہ دیتے ہیں جو پسندیدہ نہیں ہوتی۔اس تحریک کے روح رواں ایک نوجوان منظور پشتون ہیں، جو بار بار ناپسندیدہ نعروں وتقاریر سے جرگے کی برات کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔وہ واضح طور بر بتاتے ہیں کہ ہم اپنی حکومت سے آئین کے اندر رہتے ہوئے مطالبات کی منظوری کیلئےاسلام آباد آئے ہیں۔
کراچی سے اس تحریک کاآغاز ہمارے دوست سیف الرحمٰن محسود(تحریک انصاف) اور محمود محسود(اے این پی) نے کیا تھا۔یہ بالغ النظر وطن دوست سیاسی لوگ ہیں ۔جمعہ کو پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ہمارے پُرانے ساتھی اسماعیل محسود سے بات ہورہی تھی،میںنے گزارش کی کہ جرگےمیں بعض ایسی تقاریرہوجاتی ہیں جن کیلئے برسرزمین کوئی عملی تحریک برپا نہیں، فکری وذہن سازی اورتنظیمی ہوم ورک سے قبل ایسی باتیں کیا معنی رکھتی ہیں؟اُنہوں نے کہا کہ’’ ہم یہاں اپنے آئینی مطالبات کیلئے آئے ہیں، جو لوگ غیر جمہوری وغیر آئینی باتیں کررہے ہیں ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں‘‘...بات بہت واضح ہوجاتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وزیرستان کے لوگ دُہرے ظلم کا شکار ہیں،پہلے طالبان کو ان کے علاقے میں لا بسایا گیا، طالبان تو غائب ہوگئے، لیکن اب طالبان کے نام پر بے قصور محسودوں کی زندگی مشکل بنادی گئی ہے۔
بنابریں جرگے کے منتظمین جہاں حکومت سے گفت وشنید کریں وہاں اہلِ پاکستان کو بھی یہ باور کرائیں کہ آپ کہتے تھےکہ دہشت گردی آپریشنوں سے نہیں سوچ کی تبدیلی سے ہی ختم ہوگی...وہ سوچ اب تغیر پزیر اور عمل کےسانچے میں ڈھلنے لگی ہے۔آئیے اور ہمارے جائز مطالبات کیلئے ہمارے ساتھ کھڑے ہوجائیے ...راقم کی سرکار سے بھی یہ استدعاہے کہ براہ کرم منفی قوتوںکوناکام بنانے کیلئے ان شہریوںکی بات سُنی جائے جو خود کو پاکستانی کہلوانےپراصرار کرتے ہیں۔ ان کی دل آزاری نہ کی جائے۔ہم تو صرف اپیل ہی کرسکتے ہیں۔
آگے جبینِ شوق تجھے اختیار ہے
یہ دیر ہے یہ کعبہ ہے یہ کوئے یار ہے

تازہ ترین