• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں مورخین، سماجی علوم کے ماہرین و محققین کے لئے بڑا قومی چیلنج یہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ کھوج لگائیں کہ یہ نیشنل ڈیزاسٹر کیسے ہوا؟ کہ ’’پاکستان میں متفقہ آئین کے نفاذ کے 45سال کے بعد بھی، سماجی پسماندگی کے گارے سے تشکیل دی گئی ’’عوامی سیاسی طاقت‘‘ آئین و قانون کو دبا کر ریاستی نظام پر کیسے حاوی ہوگئی؟ پھر اس کے کتنے تباہ کن نتائج نکلے اور نکل رہےہیں؟ تب جبکہ مستقبل قریب میں ہی تابناک پاکستان کے امکانات ظہور پذیرہیں۔
نئی نسل کو متذکرہ تین سوالوں کے جواب سائنٹفک ریسرچ کی روشنی میں ملنا عظیم قومی ضرورت ہے۔ ان کے بغیر ان کے لئے تابناک پاکستان کی راہ نکالنا اور اس پر چلنا ممکن نہ ہوگا۔
70سال میں ہماری مارشل لائی حکومتوں نے کس طرح ملکی سماجی پسماندگی کے سیاسی استعمال سے ایسی سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کی تشکیل کی؟ جنہو ںنے اپنے آمر آقائوں سے بڑھ کر اپنی ہی سماجی پسماندگی کے بدترین حربوں سے حقیقی جمہوری عمل اور اقدار کی راہیں بند کردیں اور خود کو فقط ووٹ کی ’’عوامی طاقت‘‘ میں ڈھال لیا۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ آج آئین و قانون اور حلف کے برعکس ریاستی عدلیہ کے مقابل اپنی ہی دھماچوکڑی سے سماجی پسماندگی کی منفی طاقت پر عوامی عدالت کا ملمع چڑھاکر اسے ہی آئینی و قانونی عدلیہ کے مقابل فراہمی عدل و انصاف کا اصل ذریعہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے اور تو اور سابق اور سزا یافتہ سینیٹر نہال ہاشمی کی قانون کی عدالت سے سزا کو اسٹیٹس کو برانڈ مبصرین اتنا گلوری فائی کر رہے ہیں کہ جیسے وہ انسانی ارتقائی عمل میں تہذیب ساز ہیروز کے بھی باپ ہوں۔ ویسے تو دانش اور بددیانتی کا کوئی تعلق نہیں لیکن ہوتی دانشورانہ بددیانتی کی بھی ایک حد تو ہے، جو پاکستان میں سماجی پسماندگی پر بیس (BASE)کرتی سیاست میں نہیں ہے۔ یہ تحریک ِ پاکستان میں اختیار کئے گئے انداز دانش اور صحافت و سیاست سے متصادم ہے۔
پاناما لیکس کے منطقی نتیجے ٹاپ۔ ڈائون ’’احتسابی عمل ‘‘ کے مقابل توہین عدلیہ کا منظم اور مستقل نوعیت اختیار کرتا ارتکاب، پھر اس کےفالو اپ میں عدلیہ مخالف ’’تحریک ِ عدل‘‘ آئین پاکستان کے خلاف کھلم کھلا محاذ آرائی نہیں؟ سوال یہ ہے کہ یہ ہی آئینی عدلیہ جسے ’’عوامی عدلیہ‘‘ کے جج قصائی کی دکان قرار دیتے رہےاور آج اپنی نااہل قیادت سے ملتمس ہیں کہ ان کے ججز کو باہر نکال دو کہ پری پاناما فیصلے ’’جمہوری حکومت‘‘ کیسے قبول کرتی رہی؟ یا انہیں عوام کےلئے یہ ہی اور اپنےلئے ’’قیومی عدلیہ‘‘ مطلوب ہے؟ ویسے یہ سوال تو نہیں بنتا، احتسابی عمل میں ن لیگ کے ایک دھڑے بشمول وفاقی وزرا کا ریاستی عدلیہ پر مسلسل تبرّا یہ ہی واضح کر رہا ہے کہ انہیں صرف اور صرف قیومی عدلیہ طرز کی عدالت ہی قبول ہے کیونکہ وہ ہی جلسہ ہائے عام میں لگی عدلیہ سے قریب تر ہے جس کے فیصلے قانون، دلیل اور شہادتوں پر نہیں قائد و پارٹی سے منظم اظہار ِوفا پر ہوتے ہیں۔
واضح رہے ’’سماجی سیاسی پسماندگی‘‘ فقط انتخابی مہم سے پولنگ ڈے تک کی اہمیت تک محدود نہیں یا تشکیل حکومت بذریعہ ووٹ تک بھی نہیں۔ اس کی دس بدترین شکلیں اورہیں۔ چن چن کر ہر حال میں وفادار رہنے والے اور پارلیمانی شعور اور جمہوری جذبے سے عاری نودولتیے امیدواروں کا انتخاب اور صرف قیادت اس کی ایک اور شکل ہے اور کتنی ہی تھانہ کچہری کلچر۔ اختیارات کا ارتکاز حکمرانوں کے بال بچوں میں ہونا معمول کے عوامی کاموں کو اذیت ناک بنانا اور انہیں سیاسی مہربانی سے نمٹانا، کروڑوں بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنا، بدترین کنبہ پروری، قانون سازی کے عمل سے بیزاری، نوآبادیاتی نظام کی طرح عوام اور حکمرانوں میں فاصلے کا بذریعہ غیرضروری پروٹوکول، کام کم اور متنازع و مشکوک اوران کی تشہیر پر عوامی خزانوں سے اربوں کروڑوں خرچ کر کے قومی صحافت کی صحت کو متاثر کرنا بھی سماجی سیاسی پسماندگی کے روایتی حربے ہیں اور کتنے ہی خلاف آئین و قانون حکومتی روایتی حربے برائے اقتدار اور سیاسی طاقت اس عوام دشمن ’’جمہوری‘‘ سیاسی عمل کا لازمہ ہیں۔ بیرون ملک بھاری بھرکم رقوم کے منکشف ہونے والے غیر قانونی اثاثے اس بدترین طرز حکومت کا حاصل برائے حکمران رہا۔
یہ سب کچھ تو برسوں سے جاری ہے۔ اسٹیٹس کو کی طاقت نے بڑا تیر جو جاری عشرہ ’’جمہوریت‘‘ میں مارا، وہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ہم نے آئین کا بگڑا حلیہ درست کردیا۔ بہت اچھا کیا بہت ضروری تھا، لیکن آئین و قانون کی کھلی خلاف ورزی اور اپنی سول آمرانہ اور خلاف جمہوریت حکمرانی کلچر عشرے کے اختتام پر جوں کا توں باقی ہے۔ سب سے بڑھ کر عدلیہ کے فراہمی انصاف کو ہی چیلنج نہیں کیا جارہا ہے۔ پھر سے آئین کا حلیہ بگاڑنے کی منظم سازشیں ہورہی ہیں۔ نااہل شخص کی پارٹی قیادت کا اہل ہونے کا قانون ہی نہیں مانا۔ وسیع تر اور سازشی نوعیت کے مفاد حاصل کرنے کے لئے ختم نبوتؐ سے متعلق آئینی مندرجات میں تبدیلی کی سازش بھی پکڑی گئی۔ دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق اب جوڈیشل کونسل کے آئینی اختیار کو کم تر کر کے موجودہ عدلیہ میں بڑھتی تازگی اورآزادی کو قابو کرنے کے لئے مسودہ قانون کی تیاری جاری ہے۔ عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری پرحملے کی یہ تیاری پارلیمان کو بالادست بنانے کے نام پر کرنے کا ارادہ ہے لیکن بدنیتی پر مبنی اس قانون سازی کا اصل نشانہ ججز ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جو مندرجات نئے قانون میں لائے جارہے ہیں، ان کا تو واضح مقصد اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو پارلیمان نے اکثریتی جماعت کے قائد کا تابع و مہمل بنانا ہے یعنی پھر عدلیہ کو انتظامیہ اور اکثریتی حکومتی جماعت کے اختیارات کے زور پرمن مانی عدلیہ کا قیام۔ یقیناً یہ سب کچھ غیر جمہوری اور قوم کے لئے ناقابل برداشت ہوگا۔
سیاسی سماجی طاقت کے زور پر اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے حربے بالآخر ناکام ہوں گے اور جاری احتسابی عمل آئین و قانون کی طاقت سے مطلوبہ نتائج دے گا۔ پاکستان تابناک بن کر رہے گا۔ یوں کہ فوج، عدلیہ اور میڈیا کی روش بدل گئی اور بدل رہی ہے۔

تازہ ترین