• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(بہن کے لئے ہدیہ تبریک)
تم کتنی پیاری، کتنی چاہت والی
جتنی سندر، اتنی نیاری
سوہنی ایسی، پھولوں جیسی
ہم سب پروانے، تم پر واری
سب کو تم، دیکھ کر جیتے
تمہاری بلائیں لیتے
جب تم خانہ داری کرنے
اسکول کو جاتیں
ہم تمہارے پانڈی ہوتے
اس لالچ میں کہ، تم
اگر کچھ پکا بھی لاتیں
تو ہم سب کے، وارے نیارے ہوتے
اور جب کبھی، ہمارے کتے
تمہارے اسکول پہ، ہلہ بولتے
تو تمہیں یاد تو ہوگا
میں نے ان کی کیسی کھچائی کی تھی
------
وہ شام مجھے، ابھی بھی یاد ہے
جب تمہاری بارات در آئی تھی
اور تم دلہن بن کر، ایسی سج رہی تھیں
کہ کبھی کوئی ایسی لگی ہوگی
پھر تم ’ایسی گئیں‘
ایسی گئیں، کہ مڑ کر بھی نہ دیکھا
جیسے ہم میں کوئی سمبندھ ہی نہ تھا
کبھی بھی جب ہم تمہیں
دیکھنے کو جایا کرتے
تم ایسے جیسے کچھ کہتے کہتے
کچھ نہ کہہ سکتی تھیں
اور جاتی تھی، ہماری اماں بھی
تمہارے بچے جنتے
اور ہم خوش ہوتے
کہ، نوری کے پلے
جیمز اور سوسن سے تو اچھے ہونگے
------
ہماری دادی، ہماری اماں
بس تمہارے، وارے نیارے
ہر پل تمہاری، مالا جپتیں
تمہاری راہ تکا کرتیں
تم میں کیا تھا آخر
جو وہ پگلی ہوئی جاتیں
وقت جانے کیسے گزرا
اور تم جانے اس کھنڈر حویلی میں
کیسے، جینے کی خاطر مرتیں
کہنے کو تو، تم زمینداری بن کے
ہیر کے دیس سدھاری تھیں
لیکن پلے نہ تمہارے
حقِ زوجگی کی، اک اکنی بھی
تم پھر بھی صابر کی شاکر تھیں
اور صابر بھائی کی، شیدائی بھی
جانے کیوں تم، اک رشتہ ازدواج کی خاطر
اپنی جان پہ کھیلے جاتیں
بے فیض لکیروں سے، کھیلے جاتیں
------
اور، جب میں کبھی بھی
انقلابی بگچہ اُٹھائے آتا، تو تم
آنکھیں چار کرنے سے ڈرتیں
جانے کیوں دل کی باتیں
دل میں رکھتیں
میرے پاس بھاڑہ ہوتا
نہ تمہارے پلے، دینے کو کچھ
جانے کہاں سے، پھر تم
کچھ چونیاں، کچھ اٹھنیاں
اکٹھی کرتیں، مجھ کو چلتا کرتیں
ماہ و سال، دہائیاں بیتیں
جانے، کیسے بیتیں
اور تم نہ جانے، کونسے دُکھ
من میں چھپائے، گھٹتی رہتیں
پر جو، تم پہ بیتی
تم تو اس کے، لائق نہیں تھیں
کاش! کہ تم وہ کر پاتیں
جو تم کرنا چاہتی تھیں
ہوائوں میں اُڑنے سے لے کے
فاختائوں سے باتیں کرتیں
پھولوں سے جی بھرنے
اور جانے کیا کچھ کر گزرنے
کی آشائوں میں
کھو کر، زندگی کرنے
کے خواب لیے تم
غم کی چھایائوں میں
یوں گم نہ ہوتیں
------
آخر، تمہیں بھی آن دبوچا
اُسی موذی مرض نے
جیسے، باجی خورشید
کے ساتھ ہوا تھا
لیکن، جانے کتنے برس
تم اپنے کینسر کو
لیے پھرتی رہیں، جیسے
درد ہے تو کیا، چلا ہی جائیگا
آخر کب تک، تم اِس کی آگ میں جلتیں
اور، آخر ہار ہی بیٹھیں
یہ بھُلا کر کہ
تمہارے چاہنے والے
تمہاری من موہنی باتیں
تمہاری یادیں
دل سے کب، اُترنے دینگے
تم سے، پھر سے ملنے کو
ترستے رہیں گے
تازہ ترین