• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں فیول کے استعمال میں تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ نئی دریافت ہونے والی بجلی کی کاریں (EVs)جو بیٹری سے چلتی ہیں، مستقبل میں پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کی جگہ لے لیں گی اور 2040ء تک سڑکوں پر 35 فیصد گاڑیاں بجلی سے چلنے والی ہوں گی۔ ان گاڑیوں کی قیمت تقریباً 22,000 ڈالر ہوگی۔ 2015ء میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں میں استعمال ہونے والی بیٹریز کی قیمتوں میں 35 فیصد کمی ہوئی ہے اور اب یہ لیتھیم بیٹریز 350 ڈالر فی کلو واٹ پر دستیاب ہیں جبکہ بیٹری بنانے والی کمپنیوں نے 2030ء تک ان کی قیمت 120 ڈالر فی کلو واٹ یا اس سے بھی کم کرنے کی پیش گوئی کی ہے۔ گاڑیوں کے علاوہ آج کل چھوٹے کارگو جہاز بھی ان بیٹریوں کو استعمال کررہے ہیں جو بندرگاہوں پر ری چارج کی جاسکتی ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کی ایک اسٹیڈی کے مطابق ان گاڑیوں کے استعمال سے 2030ء تک تیل امپورٹ کے بل میں 40 فیصد اور کاربن کے اخراج میں تقریباً 47 فیصد کمی متوقع ہے جس سے دنیا میں تیل کے استعمال میں 13 ملین بیرل یومیہ کمی ہوجائے گی جو دنیا کے تیل پیدا کرنے والے ممالک کیلئے ایک خوفناک خواب ہے کیونکہ ان ممالک کی معیشتوں کا زیادہ تر انحصار ان کی تیل کی پیداوار پر ہے۔یہ ممالک دنیا میں ایل این جی کے استعمال میں اضافہ، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی اور امریکہ میں شیل گیس کی دریافت سے تیل کی طلب میں کمی کے باعث معاشی بحران کا شکار ہیں۔ دنیا میں تیل کی طلب میں کمی کے ساتھ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں شدید کمی بھی ہوئی ہے جو 140 ڈالر فی بیرل سے کم ہوکر 50 سے 60 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہیں۔ اخراجات پورا کرنے کیلئے ان میں سے کچھ خلیجی ممالک نے نئے ٹیکسز لگادیئے ہیں اور باقی ممالک بھی آئندہ چند سالوں میں VAT کا نفاذ کرنا چاہتے ہیں۔
شیل گیس قدرتی گیس کی ایک قسم ہے جو زیر زمین باریک ریت کے ذروں اور مٹی سے بننے والی تہہ دار چٹانوںسے حاصل کی جاتی ہے جسے Mudstone کہاجاتاہے۔ بلیک شیل میں پائے جانے والے نامیاتی اجزا کو توڑ کر گیس اور تیل حاصل کیاجاتاہے۔ امریکی انرجی ڈپارٹمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے 32ممالک میں شیل گیس کے 5760 ٹریلین کیوبک فٹ (TCF) کے ذخائر ہیں جو امریکہ میں شیل گیس کے موجود ذخائر کا 7 گناہے۔ دنیا میں شیل گیس کے بڑے ذخائر شمالی امریکہ میں 1931TCF، چین میں 1275TCF، جنوبی امریکہ میں1225TCF، میکسیکو میں 681TCF، یورپ میں 639TCF جس میں پولینڈ میں سب سے زیادہ شیل گیس کے ذخائر موجود ہیں جبکہ جنوبی افریقہ میں 485TCF اور بھارت میں 63TCF شیل گیس کے ذخائر ہیں، بھارت کا سب سے بڑا گروپ ریلائنس شیل گیس کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔ اس کے علاوہ لیبیا، الجزائر، ارجنٹائن، جنوبی افریقہ، کینیڈا اور پاکستان میں بھی شیل گیس کے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ شیل گیس کو زمین سے نکالنے کی جدید ٹیکنالوجی Hydrofracking استعمال کی جاتی ہے جو صرف امریکہ کے پاس ہے، اس لئے گزشتہ 5 سال کے دوران امریکہ میں شیل گیس کی پیداوار میں 20% اضافہ ہواجو اس کی قدرتی گیس کی مجموعی پیداوار کا 25% ہے جبکہ 2030ء تک امریکہ میں اس کی قدرتی گیس کی پیداوار 50%ہوجائے گی۔ امریکہ میں شیل گیس کی پیداوار میں اضافے سے نہ صرف ملکی ضروریات پوری ہوں گی بلکہ مستقبل قریب میں امریکہ اس کا ایکسپورٹر بھی بن سکتا ہے۔ توانائی کے ماہرین کاکہناہے کہ نئے ذخائر کی دریافت سے عالمی سیاست، معیشت اور جیواسٹرٹیجک توازن کا کھیل مکمل طورپر تبدیل ہوجائے گا۔
قدرتی گیس جسے ہم مختلف شکلوں میں گھروں، صنعتوں اور گاڑیوں میں استعمال کرتے ہیں جس میں ایل پی جی (LPG) اور سی این جی (CNG) وغیرہ شامل ہیں اور مشرف دور حکومت میں گاڑیوں کو سی این جی پر منتقل کیا گیا تھا اور آج دنیا میں پاکستان سب سے زیادہ سی این جی کی گاڑیاں استعمال کرنے والا ملک ہے لیکن وہ ممالک جہاں قدرتی گیس دستیاب نہیں، ایل پی جی (LPG) اور ایل این جی (LNG) امپورٹ کرکے اپنی انرجی کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ LNG وہ قدرتی گیس ہے جسے پریشر کے ذریعے محلول کی شکل میں تبدیل کردیا جاتا ہے اور پھر اسے خصوصی بحری کنٹینرز جہازوں میں لایا جاتا ہے جہاں ایل این جی ٹرمینل میں اس محلول کو ایک خاص عمل کے ذریعے دوبارہ گیس کی شکل میں تبدیل کرکے گیس نیٹ ورک میں داخل کردیا جاتا ہے اور پھر اسے قدرتی گیس کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ قطر دنیا کو سب سے زیادہ ایل این جی گیس فراہم کرنے والا ملک ہے جس نے آئندہ کئی سالوں تک اپنی ایل این جی گیس کی سپلائی کا معاہدہ کوریا، جاپان، چین اور دیگر ممالک سے کر رکھا ہے۔ قطر کے علاوہ انڈونیشیا، ملائیشیا، الجیریا، آسٹریلیا اور ٹرینی ڈاڈ دنیا کے بڑے ایل این جی سپلائی کرنے والے ممالک ہیں۔ ایک mmtpa گنجائش کے ایل این جی پلانٹ کی قیمت تقریباً 1.5 ارب ڈالر ہوتی ہے۔ پاکستان میں اب تک پورٹ قاسم میں 2 ایل این جی ٹرمینل بنائے جاچکے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت 2.5cbft بلین گیس کی کمی کا سامنا ہے جس کو پورا کرنے کیلئے پرائیویٹ سیکٹر نے اب تک دو ایل این جی ٹرمینل پورٹ قاسم میں لگائے ہیں۔ پہلا 600mmcfd گنجائش کا ایل این جی ٹرمینل اینگرو نے پورٹ قاسم میں ریکارڈ 330 دنوں میں لگایا اور اب تک اس ٹرمینل کے ذریعے ایل این جی کی 120 شپمنٹس مجموعی مقدار 7.4mmcfd کی گیس لائی جاچکی ہے جس سے حکومت کو ہر سال فرنس آئل کے مقابلے میں 1.2 ارب ڈالر کا فائدہ ہورہا ہے جبکہ PGPC کے اتنی ہی گنجائش 600mmcfd کے دوسرے ٹرمینل نے پورٹ قاسم میں 27 دسمبر 2017ء کو کمرشل آپریشن شروع کردی ہے جس سے کافی حد تک پاکستان میں گیس کی کمی پر قابو پایا جاچکا ہے۔
اس وقت جاپان دنیا میں ایل این جی امپورٹ کرنے کا سب سے بڑا ملک ہے اور دنیا کی ایل این جی امپورٹ کا تقریباً 35 فیصد امپورٹ کرتا ہے۔ جاپان کی حکومت کے مطابق 2030ء تک ایل این جی امپورٹ میں تقریباً 30 فیصد کمی متوقع ہے جبکہ 2020ء تک جنوبی ایشیاء میں بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کی ایل این جی امپورٹ میں اضافے کی وجہ سے جنوبی ایشیاایل این جی کا گلوبل حب بن جائے گا اور ایل این جی کی سالانہ امپورٹ موجودہ 22 ملین ٹن سے بڑھ کر 2030ء تک 80 ملین ٹن سالانہ ہوجائے گی جبکہ 2020ء تک بھارت 50 ملین ٹن اور پاکستان 30 ملین ٹن ایل این جی سالانہ امپورٹ کرے گا اور مستقبل میں جنوبی ایشیا کی ایل این جی کی طلب یورپ سے بڑھ جائے گی۔
قطر دنیا میں ایل این جی سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جس نے پاکستان سمیت خطے کے ممالک کے ساتھ ایل این جی سپلائی کرنے کے طویل المیعاد معاہدے کئے ہوئے ہیں۔ ایل این جی کی قیمت عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں سے منسلک ہے اور تیل اور پیٹرول کی طرح اس کے نرخوں میں بھی اتار چڑھائو ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان کی خوش نصیبی ہے کہ ہم نے جب قطر سے ایل این جی کا معاہدے کیا تو عالمی منڈی میں تیل کی قیمت نہایت نچلی سطح پر تھی جس کی وجہ سے ایل این جی کی قیمت بھی 13 ڈالر فی ملین BTU سے کم ہوکر تقریباً 5 ڈالر فی ملین BTU ہوگئی تھی۔ پاکستان میں ایل این جی امپورٹ کرنے سے پنجاب میں بے شمار بجلی پیدا کرنے والے یونٹس درآمد کی گئی ایل این جی پر منتقل ہوئے ہیں جس سے صنعتوں کی لوڈشیڈنگ میں نہایت کمی آئی ہے لیکن ہمارے ملک کا مسئلہ صرف توانائی کی سپلائی نہیں بلکہ بجلی اور گیس کو مقابلاتی نرخوں پر سپلائی کرنا ہے جس کیلئے ہمیں اپنے انرجی مکس کو بہتر بنانے کیلئے زیادہ سے زیادہ متبادل توانائی کے ذرائع سے سستی بجلی پیدا کرنا ہوگی تاکہ ہم قابل برداشت قیمتوں پر بجلی سپلائی کرکے اپنی صنعتوں کو مقابلاتی بناسکیں۔

تازہ ترین