• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا دنیا ایک اور عالمی جنگ کی طرف جا رہی ہے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے ، جو آج کی دنیا کا قطعی طور پر متعلق ( Relevant ) سوال ہے کیونکہ اہل دانش سمیت عام آدمی بھی یہ محسوس کر رہا ہے کہ عالمی سطح پر طاقت کا توازن بگڑ رہا ہے اور حالات جوں کے توں نہیں رہیں گے ۔ یعنی اب ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ کسی بھی طرح برقرار نہیں رہ سکتا ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ چین ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے اور واحد سپر پاور کے طور پر امریکہ کی عالمی بالادستی کیلئے چیلنجز پیدا ہو گئے ہیں ۔ چین کو اس بات کا ادراک ہے کہ اس کی بڑھتی ہوئی طاقت کے سامنے امریکہ اور اس کے اتحادی رکاوٹ بن رہے ہیں اور امریکیوں میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ چین ایک بڑھتا ہوا خطرہ ہے اور اسے روکنا لازمی ہے ۔ 19 اکتوبر 2017 ء کو چین کی کمیونسٹ پارٹی کی 19 ویں کانگریس سے چین کے صدر زی چن پنگ کے تاریخی خطاب کو امریکہ اور اس کے اتحادی ایک وارننگ قرار دے رہے ہیں کیونکہ صدر زی نے پہلی مرتبہ عالمی اسٹیج پر چین کی طرف سے اہم کردار ادا کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ’’ چینی قوم کھڑی ہو چکی ہے ۔ وہ دولت مند اور مضبوط ہو چکی ہے اور ایسا عہد آ رہا ہے ، جو یہ دیکھے گا کہ چین اسٹیج کے مرکز کی طرف بڑھ رہا ہے اور انسانیت کیلئے سب سے زیادہ خدمات انجام دے رہا ہے ۔ ‘‘ اس کے برعکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 30 جنوری 2018 ء کو اپنے پہلے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں چین کو امریکی ’’ تہذیب ‘‘ کیلئے خطرہ قرار دیا ۔ تاریخ کے تناظر میں اہل دانش متنبہ کر رہے ہیں کہ جب بھی تاریخ میں ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ کیلئے چیلنجز پیدا ہوتے ہیں یا ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ برقرار رہنے کے حالات نہیں رہتے ، بڑی جنگیں لازمی ہو جاتی ہیں ۔ گزشتہ پانچ صدیوں میں اس طرح کے حالات 16 مرتبہ پیدا ہوئے اور 12 مرتبہ عالمی جنگیں ہوئیں ۔ لہٰذا چین اور امریکہ کے ٹکراؤ کے امکانات 80 فیصد ہیں ۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ چین اپنی بڑھتی ہوئی طاقت کے زعم میں اور امریکہ اپنے خوف میں ایسی پالیسیاں بنا رہے ہیں یا ایسے اقدامات کر رہے ہیں ، جن کی وجہ سے وہ ’’ تھیوسی ڈائیڈ ٹریپ ‘‘ ( Thucy Dide Trap ) کا شکار ہو رہے ہیں ۔ تھیو سی ڈائیڈ ایک یونانی مورخ تھے ، جنہوں نے ساڑھے چار صدی قبل مسیح دو طاقتور ریاستوں ایتھنز اور اسپارٹا کے مابین جنگ کی نہ صرف تاریخ مرتب کی بلکہ اس جنگ کے اسباب بھی بیان کئے ۔
تھیو سی ڈائیڈ کے مطابق دونوں بڑی طاقتیں جنگ نہیں کرنا چاہتی تھیں لیکن وہ اپنی پالیسیوں کی وجہ سے ایک ایسے جال ( ٹریپ ) میں پھنستی چلی گئیں کہ انہیں 30 سال تک جنگ لڑنا پڑی ، جس کے نتیجے میں سب کچھ تباہ ہو گیا ۔ تھیو سی ڈائیڈ لکھتے ہیں کہ ’’ جب ایک عظیم طاقت دوسری کیلئے خطرہ بن جاتی ہے تو اس کا نتیجہ جنگ ہوتا ہے ۔ ‘‘ آج کی دنیا یہ سمجھ رہی ہے کہ چین اور امریکہ ’’ تھیوسی ڈائیڈ ٹریپ ‘ کا شکار ہو رہے ہیں ۔ چین کے صدر زی جن پنگ نے دو سال قبل امریکہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ یہ نام نہاد تھیوسی ڈائیڈ ٹریپ دنیا میں کہیں نہیں ہے ۔ البتہ بڑے ممالک تزویراتی ( اسٹرٹیجک ) اندازے لگانے میں غلطیاں کرتے ہیں ، جن کی وجہ سے وہ خود ’’ ٹریپ ‘‘ ( جال ) میں پھنس جاتے ہیں ۔ ‘‘
یہ حقیقت ہے کہ چین امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کر رہا ہے اور ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ برقرار نہیں رہے گا ۔ اگرچہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چین ایک ایسا ملک ہے ، جو تحمل کا مظاہرہ کرے گا اور اقتصادی جنگ کو فوجی تصادم میں تبدیل نہیں ہونے دے گا لیکن اس تحمل کا دوسری طرف سے شاید مظاہرہ نہ ہو سکے ۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کا مزاج ان لوگوں نے بنایا ہے جو اینگلو سیکسن‘‘ نسل کے ہیں اور اپنی فطرت میں جنگ جو اور مہم جو ہیں ۔ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ چین اس حد تک دنیا پر کنٹرول حاصل کر لے کہ اس کے خلاف بعد ازاں لڑا بھی نہ جا سکے ۔ قوموں کے مزاج اور نفسیات کا یہ فرق ہی دراصل ’’ تھیوسی ڈائیڈ ٹریپ ‘‘ ہے ۔ چین کو یہ بھی احساس ہے کہ امریکہ کیا کر سکتا ہے ۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی 19 ویں کانگریس سے اپنے خطاب میں صدر زی نے چین کی فوج کو دنیا کی ایسی مضبوط فوج بنانے کا بھی اعلان کیا ، جو جنگیں جیت سکے اور جو چین جیسی عالمی طاقت کی تذویراتی پالیسیوں کے مطابق ہو ۔ چین یہ جانتا ہے کہ امریکہ نے بھارت سے آسٹریلیا تک چین مخالف اتحاد بنانے کے منصوبے پر عمل شروع کر دیا ہے اور چین کے ارد گرد ملٹری بیس تعمیر کر لئے ہیں ۔ امریکہ اپنے نیو کلیئر پروگرام کو بھی اپ ڈیٹ کر رہا ہے ۔ اس کیساتھ ساتھ چین اور روس بھی اپنے نیو کلیئر پروگرام کو جدید بنا رہے ہیں ۔ چین اپنے ارد گرد امریکی گھیراؤ کا مقابلہ کرنے اور خطے سے باہر امریکی اتحادیوں کی فوجی قوت کو حد میں رکھنے کیلئے علاقائی اتحاد قائم کر رہا ہے ۔ چین کے علاوہ روس ، ایران اور کسی حد تک پاکستان بھی امریکہ کیلئے چیلنجز پیدا کر رہے ہیں اور وہ مجبوراً دوسری صف میں جائیں گے ۔
شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کی روایتی دشمنی ختم ہو رہی ہے اور شمالی کوریا براہ راست امریکہ کو للکار رہا ہے ۔ ہم نے گزشتہ صدی میں پہلی اور دوسری عالمی جنگیں ،طویل عرصے تک سرد جنگ اور اس کے بعد غیر ریاستی عناصر یعنی دہشت گردوں کے ذریعے مسلط کردہ جنگیں دیکھی اور ان کی تباہ کاریوں کو بھگتا ہے ۔ ان جنگوں کا بنیادی سبب بھی یہی تھا کہ نئی طاقتوں نے پرانی طاقتوں کو چیلنج کیا اور اسٹیٹس کو برقرار رہنے کے حالات ختم ہو گئے ۔ اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ دنیا خطرناک صورت حال سے دوچار ہو سکتی ہے ۔ یہ بھی متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اگر کوئی عالمی جنگ ہوتی ہے تو وہ روایتی جنگ نہیں ہو گی ۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کے دور میں ملکوں اور خطوں کے داخلی انتشار ، دہشت گردی اور پراکسی وار لڑی جانے والی جنگوں کی صورت میں ہو گی ۔ ماحولیات کو درپیش خطرات ، کچھ خطوں میں بڑھتی ہوئی آبادی ، غربت ، لسانی ، نسلی ، مذہبی اور فرقہ ورانہ قومی بنیادوں پر مسلح تصادم کے حالات ملکوں اور خطوں کے اندر غیر روایتی عالمی جنگ کا سبب بن سکتے ہیں ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ عالمی طاقتیں بربادی اور تحمل کا مظاہرہ کریں گی لیکن کسی نے یہ خوب کہا ہے کہ ’’ امید ‘‘ حکمت عملی نہیں ہوتی۔

تازہ ترین