• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ایک عجیب و غریب الجھن کا شکار ہوں اور سمجھ نہیںپا رہا کہ اپنے دوست کو کیا مشورہ دوں ۔بات کچھ یوں ہے کہ بہت عرصہ بعد ایک دوست کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا تو سارا نظام ہی تلپٹ ہوا تھا ۔میرا دوست جو اس دفتر کا باس ہے اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور اس کی حالت مجھ سے دیکھی نہیں جا رہی تھی۔بار بار پوچھنے پر اس نے سرگوشی کے انداز میں کہا ،دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں ،آئو باہر صحن میں چل کر بات کرتے ہیں۔میں نے حیرت بھرے لہجے میں پوچھا ’’یہ دفتر تمہارا ہی ہے ناں ۔۔‘‘ اس نے جملے میں چھپا طنز نظر انداز کرتے ہوئے میرابازو تھاما اور باہر کو چل دیا ۔میرے دماغ میں افواہوں اور اندیشوں کے جھکڑ چلنے لگے مگرصورتحال کے پیش نظر خاموشی اختیار کئے رکھی ۔جب صحن میں پہنچے تو اس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا ’’تم نے وہ شعر تو سنا ہو گا ’’عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا ‘‘میں نے کہا ہاں یہ منیر نیازی مرحوم کی مشہورزمانہ غزل ہے مگر تم شاعرانہ تعلی کو چھوڑو اور یہ بتائو ہوا کیا ہے؟اس نے ایک اور ٹھنڈی آہ بھرنے کے بعد کہا ’’اب کہتے ہیں اہل چمن ،یہ چمن ہمارا ہے تمہارا نہیں‘‘میں نے غصیلے لہجے میں اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا اس سے پہلے کہ میں یہ مالٹا تمہارے سر پر دے ماروں ،سیدھی طرح بتائو ماجرا کیا ہے؟اس نے ایک مرتبہ پھر ادھر ادھر دیکھا اور پھر سہمے ہوئے انداز میں گویا ہوا’’مسئلہ تو بہت گھمبیر ہے اور اسے بیان کرنا بھی دشوار ہے مگر کل ملا کر بات یہ ہے کہ یہاںمیرے علاوہ ہر شخص افسر اور باس ہے ‘‘میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا ’’کیوں تمہارا گارڈ تمہاری کرسی پر آکر بیٹھ جاتا ہے کیا ؟‘‘ وہ تو جیسے قہقہہ لگانا ہی بھول گیاتھا ،بدستور اسی سپاٹ لہجے اور شاعرانہ مزاج میں کہنے لگا ’’اے نکہت بادِبہاری راہ لگ اپنی ،تمہیں اٹھکھیلیاں سوجھیں ہم بیزار بیٹھے ہیں‘‘میں نے اپنے انداز پر مصنوعی سنجیدگی طاری کرتے ہوئے پوچھا ،اچھا اشاروں کنایوں سے ہٹ کر عام فہم انداز میں بتائو کہ بنیادی مسئلہ کیا ہے؟اس نے بتایا کہ غلطی سے وہ انقلابی اور اصلاحی قسم کے ایسے لوگ دفتر میںبھرتی کرنے کی غلطی کر چکا ہے جو ضرورت سے زیادہ متحرک و فعال ہیں ۔اس سے پہلے کہ اس کی بات مکمل ہوتی ،میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ جسے تم زحمت سمجھ رہے ہو یہ تو دراصل رحمت ہے ،آجکل ہر کوئی نکھٹو ،کام چور اور ہڈ حرام قسم کے ملازمین سے تنگ دکھائی دیتا ہے اگر تمہیں اس طرح کے مضطرب ، بے چین اور عادل لوگ عطا ہوئے ہیں تو تمہیں شکر ادا کرنا چاہئے۔میرے دوست نے کھاجانے والی نظروں سے دیکھا اورنہایت ناگواری سے کہا ،عادل نام کا ایک بندہ بھی ہے یہاں پر جس نے سب سے زیادہ پریشان کر رکھا ہے اس کے بارے میں بھی بتاتا ہوںپہلے میں اپنے آفس بوائے کی کارکردگی تمہارے سامنے رکھتا ہوں ۔ چائے بنانا،دفتر میں صفائی کرنا ،باہر سے پان سگریٹ لانا اور اس طرح کے چھوٹے موٹے کام کرنا اس کی بنیادی ذمہ داری ہے مگروہ ان بنیادی ذمہ داریوں کے بجائے ثانوی نوعیت کے اخلاقی فرائض کی ادائیگی کے لئےہمہ وقت کوشاں رہتا ہے مثال کے طور پر تمہاری آمد سے پہلے میں نے اسے بلایا اور کہا کہ ایک بہت ہی اچھے دوست آرہے ہیں ان کے سامنے انکار کرکے میری بے عزتی نہ کردینا اور دو اچھی سی چائے بنادینا ۔اس نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا ،صاحب جی! آپ کو چائے پینے کی پڑی ہے اور باہر ایک سائل آدھے گھنٹے سے منتظر ہے کہ کب آپ فارغ ہوں اور وہ اپنا مسئلہ بیان کرے اگر آپ کو اس سے نہیں ملنا تو میں ہی اس کی دادرسی کر دیتا ہوں۔یہ کہتے ہوئے وہ یوں دفتر سے چلا گیا جیسے میں انتہائی نااہل شخص ہوں اور وہ بہت قابل انسان ہے۔اسے اپنے کام کے علاوہ ہر کام کرنا پسند ہے مثال کے طور پراکائونٹینٹ کی غلطیاں نکالنا اور جی ایم کو یہ بتانا کہ دفتر کا نظم و نسق کیسے قائم رکھا جاتا ہے ،اس کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔
میرادوست دل کا غبار نکال رہا تھا اور میں اس کے چہرے کے تاثرات اور حرکات و سکنات سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ سچ بول رہا ہے یا مجھے بے وقوف بنانے میں لگا ہوا ہے۔اس نے بتایا کہ آفس بوائے کی طرح پورے دفتر میں ہر شخص اس انقلابی و اصلاحی وبا سے کسی نہ کسی حد تک متاثر ہوا ہے اور دوسروں کی زندگیوں میں تبدیلی لاکر نظام بدلنے کا خواہاں ہے۔مثال کے طور پراکائونٹینٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دفتر کے اخراجات اور آمدنی کا گوشوارہ باقاعدگی سے مرتب کرے ،روزنامچہ بنائے ،ملازمین کی تنخواہوں کا حساب کتاب مرتب کرے لیکن وہ بورڈ روم میں کبھی مارکیٹنگ اسٹاف کی میٹنگ لیتے ہوئے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے کہ مارکیٹنگ کے بنیادی اصول کیا ہیں اور کبھی کوالٹی مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے اسٹاف کو طلب کرکے ان کی ناقص کارکردگی پر ڈانٹ ڈپٹ کر رہا ہوتا ہے۔
جو بندہ اسے یہ سمجھانے کی غلطی کربیٹھے کہ اس کی ذمہ داریوں کی حدود و قیود کیا ہیں اس کی تنخواہ روک لی جاتی ہے۔اچانک مجھے خیال آیا کہ ان عادل صاحب کے بارے میں پوچھوں جن کا ذکر آتے ہی میرے دوست کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات بہت واضح ہوگئے تھے۔
میں نے اسے ٹوک کر پوچھا ،اچھا وہ عادل جس کا تم ذکر کر رہے تھے وہ کیا کریکٹر ہے؟اچانک اس کی بولتی بند ہو گئی اور اس نے دونوں ہاتھوں سے سے اپنا سر تھام لیا ۔کچھ توقف کے بعد بدحواسی پر قابو پالیا تو کہنے لگا ،دفتری معاملات میں جہاں بورڈکے درمیان اختلاف ہو جائے وہاں اصولی طور پر بطور چیف ایگزیکٹو مجھے فیصلہ کرنا ہوتا ہے مگر میں نے جمہوری انداز اختیار کرتے ہوئے ایک ثالثی کونسل بنا دی تھی تاکہ ایسے اختلافی امور کو وہاں نمٹایا جاسکے ۔اگر کسی ملازم کو ناقص کارکردگی پر نوکری سے نکالا جاتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ یہ فیصلہ مبنی بر انصاف نہیں تو وہ اس ثالثی کونسل سے رجوع کر سکتا ہے ۔ چیئرمین ثالثی کونسل کا کام ہے کہ وہ اس ملازم کو فارغ کرنے والی اتھارٹی کو طلب کرے اور دونوں کا موقف سننے کے بعد یہ فیصلہ دے کہ ملازم واقعی نااہل تھا یا پھر اس کے ساتھ زیادتی ہوئی۔اسی طرح مالی نوعیت کے معاملات پر بھی اس ثالثی کونسل سے رجوع کیا جاتا ہے ۔چند برس ہوتے ہیں میں نے ایک بزرگ عادل کو اس ثالثی کونسل کا چیئرمین مقرر کیا ۔کچھ عرصہ تو معاملات درست انداز میں چلتے رہے لیکن پھر اچانک نہ جانے کیا ہوا کہ اس نے اپنے اختیارات اور منصب کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے سارے دفتر کا انتظام و انصرام اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش شروع کردی۔
یہ صاحب دفتر کے مختلف سیکشنز کا دورہ کرتے ہیں ،ایچ او ڈیز یعنی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹس سے ان کی کارکردگی کی رپورٹس طلب کرتے ہیں اور یہاں تک کہ جن مسائل کے حل کے لئے مجھے درخواستیں دی جاتی ہیں ان سائلین کو بھی اپنے پاس طلب کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان پر ایک بھاری ذمہ داری عائد کی گئی ہے انہیں سب کے حقوق کا خیال کرکھنا ہے۔حالانکہ ان کی ثالثی کونسل میں بیشمار معاملات زیرالتواء ہیں لیکن انہیں نمٹانے کے بجائے وہ باقی محکموں کے امور میں ٹانگ اڑانا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔اب تم خود ہی بتائو اس صورتحال کو رحمت کہا جائے یا زحمت ، وہ شخص عادل ہے یا حاکم؟
میں تو یہ وعدہ کرکے وہاں سے چلا آیا کہ چند دنوں میں سوچ کر آپ کو جواب دوں گا لیکن کیا خیال ہے اسے یہ مشورہ نہ دوں کہ جسے جو کام پسند ہے کچھ دنوں کے لئے وہ ان کے ساتھ کرسیاں بدل لے تاکہ انہیں لگ پتہ جائے کہ جس کاکام اسی کو ساجھے۔

تازہ ترین