• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل جاری رکھنے کے آثار واضح نظر آرہے ہیں جو ایک اچھی بات ہے تاہم جمہوریت ہو تو پھر عوام کی خدمت کے لئے ہونا چاہئے ، حکمرانوں پرعوام کے مفادات کا تحفظ لازم ہوتا ہے، افلاطون نے عوام کی خدمت کے جذبے سے معمور ہر حکومت کی حمایت کی ہے، چاہے وہ بادشاہت کی شکل میں ہو یا امراء یا جمہوری انداز سے کی جارہی ہو، اور اس حکومت کو ظالمانہ قرار دیا ہے جو شخصی یا چند لوگوں کے ذریعے کی جارہی ہے یا جمہوریت کے نام پر کی جاتی ہو، مگر عوام کے مفاد میں نہ ہو، البتہ بعض فلسفیوں نے جمہوریت کو ہی سب سے اچھا طرزِ حکومت تسلیم کیا اور کہا کہ اگر بُری حکمرانی ہو تب بھی جمہوریت کے راستہ پر چل کر اُسے اچھا بنانا چاہئے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں خاندانی جمہوریت کے نام پر حکمرانی ہورہی ہے، اس کے باوجود بھی چیف جسٹس آف پاکستان نے جمہوریت کے حق میں بات کی کہ جمہوریت کو پٹری سے اترنے نہیں دیں گے، اگر جمہوریت کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی تو وہ اپنا عہدہ تک چھوڑ دیں گے، یہ بات جمہوریت کو تقویت پہنچاتی ہے اور شاید مستقبل میں اچھے نتائج مرتب کرے، اگر اس میں سے شخصی، خاندانی اور کرپشن کو نکال دیا جائے۔ پاکستان میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور دیگر پارٹیاں کسی نہ کسی طور پر اپنا کردار ادا کررہی ہیں اور ملک میں استحکام لانے کی کوشش کر رہی ہیں، اگرچہ پاکستان میں یہ خدشہ کئی مرتبہ رہا کہ جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جائے گی مگر شاید وہ ڈرانے کے طور پر استعمال ہوا، عملاً اس پر کچھ کام نہیں دیکھا گیا، جنرل راحیل شریف کے دور میں عمران خان کے دھرنے نے کافی خوف پیدا کیا کہ حکومت آج گئی کہ کل گئی مگر فوج کی جنبش نظر نہیں آئی، اگرچہ دھرنے نے صورتِ حال کو کافی بگاڑا اور ایسے اقدامات بھی کئے جو قابل ستائش نہیں کہے جاسکتے، جن سے یہ تاثر ابھراکہ کچھ ہونے والا ہے، پھر کسی لیڈر کا یہ انداز ِگفتگو جیسے یہ فیصلہ آجائے گا یا وہ نکال دیئے جائیں گے یا جیل میں ڈال دیئے جائیں گے۔ اِس سے عدلیہ کی حرمت پر حرف آرہا ہے، یہ محسوس کرانے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے عدلیہ کسی سے پوچھ کر فیصلہ کرتی ہے، یہ طرزِ گفتگو، یہ اندازِ سیاست درست نہیں، عدلیہ آزاد ہے اور وہ اپنے طور پر فیصلے کررہی ہے، اُن پر عمل درآمد کرا بھی رہی ہے جو بعض سیاستدانوں کو بُرا بھی لگ رہا ہے اور وہ اس کے خلاف آواز بھی اٹھا رہے ہیں، وہ بھی مناسب طریقہ کار نہیں ہے۔ انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ ریاست کے تین ستون ہیں، اگر دو ستون کمزور پڑ جائیں، ایک ستون بھی مضبوطی سے کھڑا رہے اور جمہوریت کے نظام کو سہارا دے رہا ہے تو اِس کو سراہا جانا چاہئے، اگرچہ اس سے کسی کی شخصیت پر ضرب بھی پڑ رہی ہو یا کسی کو نقصان بھی ہورہا ہو، مگر عدلیہ کے فیصلوں کو ماننا ضروری ہے کہ وہ دوسرے ستونوں کو مضبوط کرنے کا باعث بنے گا اور ملک میں جمہوری نظام چلتا رہے گا۔
میں نے شروع میں جمہوریت کے تسلسل کے آثار کا ذکر اس لئے کیا تھا کہ لاہور میں ہونے والا طاہرالقادری کے دھرنے میں اگر یہ فیصلے ہوجاتے کہ سندھ اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں توڑ دی جائیں اور پی پی پی اور پی ٹی آئی کے ممبران قومی اسمبلی اور سینیٹ سے استعفے دے دیتے تو ملک میں بحران پیدا ہوجاتا اور جمہوریت لپیٹ دی جاتی مگر کچھ قوتوں نے اِس سلسلے میں مثبت کردار ادا کیا اور ایسا نہیں ہونے دیا۔ کراچی میں بھی نادیدہ قوتوں نے مداخلت نہیں کی تو ایم کیو ایم اپنے معاملات خود نمٹانے کی کوشش کررہی ہے، جو عین جمہوری انداز ہے، اس طرح ایم کیو ایم نے پہلی مرتبہ جمہوری طریقے سے فیصلہ کرنے کے طرز کو اپنایا اور اُن کا اندازِ سیاست، جمہوری طرز ِعمل کی ایک انداز سے کام کرنے کی مشق ہوئی، یوں اگر راحیل شریف کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ وہ مارشل لا کی طرف بڑھ رہے تھے، عملاً اس کی کوئی شکل سامنے نہیں آئی، یہ بات ہم اپنے تجربہ کی بنا پر کہہ رہے ہیں کہ جب کوئی پیش رفت ہوتی تھی تو زمین پر دکھائی دیتی تھی، ٖفیض آباد کے دھرنے کے موقع پر بھی اداروں نے بہت اہم کردار ادا کیا، اگرچہ وہ اس قدر واضح طور پر نہیں ہونا چاہئے تھا کہ ٹی وی اور اخبارات کے نمائندے یہ اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہوں اور عوام کو دکھا رہے ہوں البتہ اُسے اس لئے ٹھیک کہا جاسکتا ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہریوںکی تکالیف کا ازالہ ہوجو ایک طرح سے سول حکومت کی مدد بھی تھی، کیونکہ اُن پر اس سے زیادہ تشدد ہوتا جتنا کہ ہوا ہو تو پھر بات کسی کے ہاتھ میں نہ رہتی اور پورا ملک اُس کی لپیٹ میں آجاتا جو ایک خطرناک صورتِ حال بھی اختیار کرسکتا تھا، پھر بھی کچھ لوگوں کو اعتراض تھا کہ یہ دھرنا بعض اداروں نے کیوں ختم کرایا۔ مگر سینئر جج صاحبان کا خیال تھا کہ جسنے بھی دھرنا ختم کرایا اچھا کام کیا کیونکہ دھرنا دینے والے جان دینے کو تیار تھے اور اٹھنے کو راضی نہ تھے، تو ایک وزیر کی قربانی سے معاملہ نمٹ سکتا تھا تو یہ کوئی بُری بات نہیں تھی۔
یہ بھی ایک ایسی علامت ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ ادارے جمہوریت کی پشت پر کھڑے ہیں، پھر اسی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ اب سینیٹ کے انتخابات ہوسکیں گے۔ جس کی وجہ سے سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہوجائے گیکسی نے اس اکثریت کے نہ ہونے میں رکاوٹ ڈالنا چاہی تو اُسے روک دیا گیا، جو مسلم لیگ (ن) کے حق میں بات جاتی ہے اور جمہوریت کی طرف قدم بڑھتے نظر آتے ہیں، یہاں اب مسلم لیگ (ن) کا امتحان ہے کہ وہ صورتِ حال کو کس طرف لے جاتی ہے، اس اکثریت سے ملک میں آمریت کی طرف بڑھتی ہے یا اُس کو جمہوریت کی راہ پر گامزن رہنے دیتی ہے، اگر وہ آمریت شخصی یا خاندانی حکومت کی طرف بڑھتی ہے تو زیادہ قوت رکھنے والے ادارے شخصی حکومت بنانے کا سوچیں گے۔ اگر وہ اسی طرح جمہوریت کے لئے کام کرتی ہے اور عدلیہ سے محاذ آرائی کو خیرباد کہتی ہے تو وہ مضبوط ہوگی اور جمہوریت کا تسلسل چلتا رہے گا۔ عوام اب یہ ضرور دیکھیں گے کہ پاکستان کے اداروں نے سینیٹ کے انتخابات کی راہ میں ہر رکاوٹ کو دانشمندی کے ساتھ دور کیا، پارٹیوں کو راضی کیا کہ وہ ایسا قدم نہ اٹھائیں کہ جمہوریت پٹری سے اتر جائے بلکہ اُسے پٹری پر رکھنے کے لئے دیگر جماعتوں کو راضی کیا، اس لئے ادارے تو جمہوریت کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں اور سپریم کورٹ کے چیف نے بھی واضع کر دیا کہ وہ جمہوریت کو پٹری سے نہیں اترنے دیں گے، یہ اچھی علامتیں ہیں، اُن کو مثبت انداز میں دیکھنا چاہئے اور اللہ کا شکر ادا کرکے ساری پارٹیوں کو ملک کے استحکام میں اپنا حصہ ڈالتے رہنا چاہئے۔

تازہ ترین