• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما پیپرز کے مقدمے میں 28 جولائی کے تاریخی فیصلے کے بعد نہ صرف اس فیصلے پہ تنقید بتدریج زور پکڑ گئی بلکہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے کنڈکٹ (طرز عمل) کو بھی نشانہ بنایا جانے لگا جس کو زیر بحث لانے پر آئین پاکستان بھی قدغن عائد کرتا ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فاضل ججز کی طرف سے سنائے گئے فیصلے سے براہ راست متاثرہ فریق نواز شریف نے مارگلہ کے دامن میں واقع وسیع وعریض وزیر اعظم ہاوس چھوڑ کر جی ٹی روڈ کا راستہ پکڑا تو لہجے کی تلخی پر قابو نہ رکھ پائے بلکہ ایک موقع پر تو اعتراف بھی کرڈالا کہ اس بار ان کی انا کو جو ٹھیس پہنچی ہے وہ اسے کسی طور بھلا نہیں سکتے۔ مسلسل تیسری بار اقتدار چھن جانے کو وہ کسی طور کوئی خطا یا بھول چوک ماننے کوتیار نہیں ہیں اور آج بھی اسی بیانیے کی نہ صرف تکرار جاری ہے کہ ان کے خلاف سازش کی گئی ہے بلکہ وہ عوام سے بھی بار بارحلف لے رہے ہیں کہ وہ اس نظرئیے پر کامل یقین لے آئیں کہ ان کے ووٹ کی حرمت پامال کی گئی ہے جس کا انہیں بدلہ چکانا ہے۔ عدالت عظمی کے فیصلے کے تسلسل میں احتساب عدالت میں آئے روز کی پیشیاں ہیں کہ جو چھ ماہ گزر جانے کے باوجود ان کے زخم مندمل نہیں ہونے دے رہیں اور یہی وجہ ہے کہ یوم کشمیر پربھی وہ مظلوم کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کی بجائے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ اس وقت تاریخ کے سب سے بڑے مظلوم وہ ہیں۔ سابق وزیر اعظم نااہلی کے فیصلے کو پارلیمنٹ سے ختم کرانے سمیت تمام اداروں کو آئینی حدود کا پابند بنانے کیلئے قانون سازی کرنے پر مبنی عزائم کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ پارٹی قائد سے وفاداری کے اظہار میں مسلم لیگ ن کے بعض رہنما احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں اور نتیجے کے طورپر توہین عدالت کے نوٹسز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مسلم لیگ ن کی حکومت کے اعلیٰ عدلیہ اور ججز سے متعلق عزائم پر موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی یہ فرما کر مہر تصدیق ثبت کر چکے ہیں کہ امریکہ سمیت دنیا بھر میں ججز کی تعیناتی کے وقت ان کی پوری زندگی کو کنگھالا جاتا ہے اور یہی معیار پاکستان میں بھی اپنایا جانا چاہئے۔ وزیر اعظم نے ججز کی پارلیمانی نگرانی کے نظام کا بھی عندیہ دیا۔ یہی وہ پس منظر ہے جس کے باعث ملک میں اعلیٰ عدلیہ اور موجودہ حکومت کے درمیان سخت تنائو کی کیفیت نظر آتی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار عدالت عظمی کے فاضل ججز کو فیصلوں کے ذریعے بولنے کی بجائے خود بھی بات کرنا پڑ رہی ہے بلکہ انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کے خلاف دائر کی گئی آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ججوں کو کوئی باہر نہیں نکال سکتا، وہ جلسے کر سکتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کو ہاتھ کھڑا کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔انہوں نے برطانوی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دے کر یہ بھی باور کرا دیا کہ بلا جواز تنقید ہو تو جج جواب دے سکتے ہیں۔ قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ اور حکومت کے درمیان کشیدگی پاکستان کی سیاسی اور جمہوری تاریخ کا حصہ ہے۔ اگر عدالتیں نظریہ ضرورت سے کام لیتی رہی ہیں تو سیاست دان بھی آمروں کی بیساکھیاں بنتے رہے ہیں،غلطیاں سب سے ہوئی ہیں دودھ کا دھلا کوئی بھی نہیں لیکن اگر غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے انہیں دہرایا جاتا رہے تو قوموں کی منزل کھوٹی ہو جاتی ہے۔ حکومت اور اعلیٰ عدلیہ کے درمیان موجودہ تنائو کی وجہ سے ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ حکومت اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تقرری کے طریقہ کارکو آئین میں ترامیم کے ذریعے اس طرح تبدیل کرنا چاہ رہی ہے کہ جس میں پارلیمنٹ کو نہ صرف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز کی تقرری میں با اختیار بنایا جائے بلکہ پارلیمانی نگرانی کا نظام بھی وضع کیا جائے۔ ہمارے باخبر سینئر ساتھی انصار عباسی کے مطابق تو مجوزہ آئینی ترامیم میں ججز کی برطرفی کا اختیار بھی پارلیمنٹ کو سونپنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی قانونی ٹیم میں شامل ایک اہم شخصیت نے میرے رابطہ کرنےپر تصدیق کی کہ سینیٹ کی کمیٹی میں اس طرح کے ایک آئینی ترمیمی بل کا مسودہ پیش کیا گیا تھا جس کا حکومت جائزہ لے رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں جب جوڈیشل ایکٹوازم اپنے عروج پر پہنچا تب بھی 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے 175 اے کی نئی شق شامل کر کے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تقرری کے طریقہ کار کو تبدیل کیا گیا تھا۔ اس نئی شق کے تحت پہلی بار اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تقرری میں چیف جسٹس سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کلی اختیارات کو جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کے دو نئے فورمز متعارف کرا کے کم کیا گیا تھا۔ اس دوران یہ کوشش بھی کی گئی تھی کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تقرری کا حتمی اختیارپارلیمنٹ کو سونپا جائے تاہم 18 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ کے فل بنچ کی طرف سے دئیے گئے فیصلے کی وجہ سے یہ کوشش پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ تب سپریم کورٹ کے فل بنچ کے فیصلے اور تجاویز کی روشنی میں آئین میں 19 ویں ترمیم شامل کرنا پڑی تھی جس میں چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم سات رکنی جوڈیشل کمیشن میں سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد دو سے بڑھا کرچار کی گئی اور پارلیمانی کمیٹی کو کسی جج کی نامزدگی سے اختلاف کی صورت میں تحریری وجوہات دینے کا پابند بنایا گیا جبکہ نامزد جج کی تقرری کے حتمی فیصلے کا اختیارجوڈیشل کمیشن ہی کے پاس رکھا گیا۔ یوں موجودہ طریقہ کار کے تحت جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ،ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ میں جج کی خالی آسامی پر کسی شخص کی نامزدگی کر کے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجتا ہے،آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی میں چار ارکان قومی اسمبلی اور چار سینیٹ سے شامل ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی چودہ دن میں تین چوتھائی اکثریت سے نامزدگی کی توثیق کرتی ہے جبکہ مقررہ وقت میں توثیق نہ کرنے پر نامزدگی حتمی تصور ہوتی ہے۔اختلاف کی صورت میں پارلیمانی کمیٹی وزیر اعظم کے ذریعے وجوہات جوڈیشل کمیٹی کو بھیجتی ہے تاہم حتمی فیصلے کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو ہی حاصل ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کئی بار اعتراض کر چکی ہے کہ اس کا کام محض جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کی توثیق کرنا ہے بلکہ سال 2015 ءمیں پارلیمانی کمیٹی نے اس طریقہ کار سے اختلاف کرتے ہوئے کچھ عرصے کیلئے احتجاجاً اجلاس منعقد نہیں کیا تھا اوروزیر اعظم کو سفارشات پیش کی تھیں کہ ججز تقرری کا حتمی اختیار پارلیمانی کمیٹی کو دیا جائے جسے کسی عدالت میں چیلنج بھی نہ کیا جا سکتا ہو۔ پارلیمانی کمیٹی نے یہ بھی تجویز کیا تھا کہ جج کی آسامی کے لئے نامزد امیدوار کی اہلیت اور قابلیت کے ساتھ اس کی مالی حیثیت کی جانچ پڑتال کا اختیار بھی کمیٹی کے پاس ہونا چاہئے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت جب اعلیٰ عدلیہ کی بھرپور فعالیت سے شاکی تھی تو تب بطور صدر آصف زرداری نے لاہور ہائی کورٹ کے ججز کی تقرری کے معاملے پر نوٹیفکیشن پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا اور انہوں نے اس بارے میںایک ریفرنس بھی دائر کیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کے فیصلے پر عمل درآمد کو صدرمملکت کے لئے لازمی قرار دیا تھا۔ تب مسلم لیگ ن زرداری کی مخالفت میں اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ کھڑی تھی جبکہ اب کردار بدل چکا اورن لیگ کی جگہ پیپلز پارٹی آزاد عدلیہ کے شانہ بشانہ ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تقرری سے برطرفی اور ان کی نگرانی سے احتساب تک پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کی کسی بھی مہم جوئی سے قبل سپریم کورٹ کے فل بنچ کے 18 ویں آئینی ترمیم میں دئیے گئے فیصلے کو ذہن نشین رکھے جس میں بڑا واضح کہا گیا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کی آزادی کا مطلب ہے کہ اسے عدالتی معاملات پر مکمل اختیار ہو جس میں ججز کی تقرری بھی شامل ہے۔

تازہ ترین