• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لودھراں اپ سیٹ، نئے اشارے، جنوبی و وسطی پنجاب کا بیانیہ بدل گیا، سہیل وڑائچ

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کیساتھ‘ میں تجزیہ کار نے کہا ہے کہ لودھراں این اے 154کے ضمنی انتخاب کے غیر حتمی نتائج کی تقریباً تصدیق ہوگئی ہے کہ جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کو شکست ہوگئی ہے ، تحریک انصاف نے وہاں بھرپور مہم چلائی ، عمران خان خود جلسہ کرنے گئے لیکن پھر بھی اپ سیٹ شکست ہوگئی ہے اس کے برعکس مسلم لیگ ن نے جارحانہ انتخابی مہم نہیں چلائی اس دفعہ نواز شریف گئے نہ شہباز شریف اور نہ کوئی دوسرا بڑا مہم چلانے گیا پھر بھی اس کے امیدوار اقبال شاہ کامیاب ہوئے ۔ پروگرام میں سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ یہ بہت بڑا سیاسی اپ سیٹ ہے جوکچھ نئے سیاسی اشارے دے رہا ہے، جنوبی اور وسطی پنجاب بیانیہ بدل گیا ہے، نواز شریف پاپولر ہورہےہیں ، ن لیگ کو ترجیح دینے کی ایک وجہ جہانگیر ترین کے وعدے پورے نہ کرنا ہے جبکہ دوسرا سیاسی فضا میں تبدیلی ہے ۔ جیو نیوز پر ’آج شاہ زیب خانزادہ کیساتھ‘ کے پروگرام کے آغاز میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ جہانگیر ترین کی نااہلی کے بعد لودھراں این اے 154کے ضمنی انتخاب میں واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ فتح جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کی ہی ہوگی، ن لیگ نے نہ کوئی جارحانہ انتخابی مہم چلائی، نہ کوئی ن لیگ کا بڑا وہاں انتخابی مہم چلانے گیا جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے جہانگیر ترین نے اپنے بیٹے علی ترین کے ساتھ بھرپور مہم چلائی، الیکشن کمیشن کے منع کرنے کے باوجود اب سے دو روز پہلے خود عمران خان وہاں پر جلسہ کرنے گئے جس کا الیکشن کمیشن نے نوٹس بھی لیا، بھرپور انتخابی مہم چلائی مگر اس کے باوجود اپ سیٹ نتائج سامنے آئے ہیں، پہلے جہانگیر ترین کی 40؍ ہزار ووٹوں کی لیڈ تھی لیکن اچانک کیا ہوا ، وہ ضمنی انتخاب جو جہانگیر ترین نے صدیق بلوچ کیخلاف لڑا اس میں ن لیگ نے بھرپور مہم چلائی، نواز شریف پیکیجز کا اعلان کر کے گئے، حلقے سے گلہ ہوتا رہا کہ وعدے پورے نہیں کئے گئے ، اس دفعہ نہ نواز شریف گئے نہ شہباز شریف گئے نہ کوئی دوسرا بڑا مہم چلانے گیا اس کے باوجود جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین اس وقت شکست کا سامنا کررہے ہیں، لودھراں کے غیرحتمی نتائج کی تقریباً تصدیق ہوگئی ہے، جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین ہار گئے ہیں، لودھراں میں ایک اپ سیٹ شکست ہوئی ہے اس بات کے باوجود کہ عمران خان خود گئے اور مہم چلائی ، ن لیگ کی طرف سے کوئی جارحانہ مہم نہیں چلائی گئی تھی۔ شاہزیب خانزاد ہ کےسوال کہ اس کو اپ سیٹ شکست کہا جائے یا حلقہ میں ماحول ایسا تھا کہ توقع کی جارہی تھی کہ علی ترین ہارسکتے ہیں؟ کے جواب میں جیو نیوز کے نمائندے رجب علی نے کہا کہ یہ ایک اپ سیٹ شکست ہے، حلقہ میں ایسا بالکل بھی ماحول نہیں تھا، حلقہ میں بالکل نہیں لگ رہا تھا کہ یہ ضمنی الیکشن ہے، پی ٹی آئی کی طرف سے چلائی جانے والی مہم میں روایتی رنگ نظر آیا اور بڑے بھرپور طریقے سے مہم چلائی گئی، کروڑوں روپے میڈیا کو اشتہارات کی مد میں دیئے گئے، عمران خان 2؍ دن قبل آئے تو ان کے ساتھ شیخ رشید، شاہ محمود قریشی اور مراد سعید بھی تھے، جہانگیر ترین نے بھی جلسہ عام سے خطاب کیا اور بھرپور طریقے سے اپنی مہم چلائی لیکن وہ ان کے کسی کام نہیں آئی، ایسا لگتا ہے کہ لوگوں نے اس مرتبہ پیسے کی سیاست کو مسترد کردیا ہے، جہانگیر ترین نے جب 23دسمبر 2015ء کو الیکشن جیتا تھا تو عوام سے بہت سے وعدے کئے تھے لیکن انہوں نے حلقہ کی سیاست اور لوگوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔شاہ زیب خانزادہ کے ایک اور سوال پر کہ ن لیگ نے ایسا کیا کردیا تھا کہ لوگوں نے ن لیگ کو ووٹ دیاکیا وعدے پورے کردیئے تھے جو وہ جیت گئے ہیں؟کے جواب میں رجب علی نے کہا کہ یہاں پر شہید کانجو گروپ جو 2013ء کے الیکشن میں یہاں پر آزاد حیثیت میں جیتا تھا اس کو عبدالرحمن کانجو لیڈ کرتے ہیں، میں سمجھتا ہوں انہوں نے بڑے منظم طریقے سے پی ایم ایل این کے جوا میدوار ہیں سید اقبال شاہ نے فوٹو سیشن پر کوئی توجہ نہیں دی، انہوں نے بڑی خاموشی سے اپنی مہم کو چلایا اور اس میں کامیاب رہے اور بہت اچھا نتیجہ دیا، آپ نے کہا کہ ن لیگ نے یہاں کیا کام کیے تو میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ن لیگ نے لودھراں خانیوال روڈ جس کو خونی روڈ بھی کہا جاتا تھا اور ہم نے اپنے آخری پروگرام میں اس کا ذکر بھی کیا تھا، شہباز شریف یہاں پر آئے اور انہوں نے اس کا اعلان کیا اور ایک سال میں وہ پایہ تکمیل تک پہنچنے کے قریب ہے، اس کے بعد انہوں نے اپنے جلسے میں 20؍ میٹرو بسوں کا اعلان کیا تھا وہ یہاں پردیدی گئی ہیں، یونیورسٹی کے کیمپس کا اعلان کیا گیا تھا وہ یہاں پر بن گیا ہے، اس کی اسی بیس تاریخ سے کلاسز بھی شروع ہورہی ہیں۔ پروگرام میں سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے بھی گفتگو کی ۔ شاہزیب خانزادہ کے سوال کہ ڈویلپمنٹ یا دوسرے معاملات ہوں، جب ہوا نہ چل رہی ہو پارٹی کے حق میں تو ہم نے دیکھا ہے کہ جماعتیں ہار جاتی ہیں، نہ ڈویلپمنٹ کام آتی ہے نہ کچھ اور، یہ 2؍ سال ڈھائی سال میں کیا ہوا ہے، 40؍ ہزار کے مارجن سے جیتنے والے جہانگیر ترین جارحانہ مہم کے باوجود، خود عمران خان وہاں گئے، ن لیگ کا کوئی بڑا نہیں گیا، کوئی جلسہ نہیں ہوا، وہ سنجیدہ ہی نہیں لے رہے تھے اس الیکشن کو اور جہانگیر ترین کے بیٹے کو اتنے بڑے مارجن سے شکست ہوگئی؟ کے جواب میں سہیل واڑئچ نے کہا کہ یہ بہت بڑا پولیٹیکل اپ سیٹ ہے جوکچھ نئے سیاسی اشارے دے رہا ہے کہ جنوبی اور وسطی پنجاب کا جو بیانیہ ہے وہ بدل گیا ہے، نواز شریف کی نااہلی کے بعد جو انہوں نے مہم چلائی ہے، اس کے بعد چکوال کا ضمنی الیکشن اور اس کے بعد یہ لودھراں کا ضمنی الیکشن یہ اس کا مظہر ہے، بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ لودھراں سٹی جس سے پچھلی دفعہ بہت بڑی لیڈ لی تھی جہانگیر ترین نے وہاں صرف ایک ہزار کا فرق پڑا ہے، ایک ہزار بھی اقبال شاہ وہاں سے جیتے ہیں، دوسرا اقبال شاہ کا انتخاب بہت مناسب تھا، اقبال شاہ نے اپنی بڑی مہنگی زمین لوگوں کیلئے مختص کی ہوئی ہے، ان کے بیٹے عامر اقبال بھی بہت مشہور ہیں، ان کو بھی بہت مثبت انداز میں لیا جاتا ہے، عبدالرحمٰن کانجو نے دن رات ایک کیا، صدیق بلوچ بھی پیچھے رہے لیکن بنیادی بات تو سیاست ہوتی ہے، لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اقبال شاہ ایک اچھے امیدوار ہیں لیکن اس دفعہ پی ٹی آئی کے بجائے پی ایم ایل این کو ترجیح دینے کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ ترین صاحب کے بہت سے وعدے پورے نہیں ہوئے او ردوسرا جو سیاسی فضا میں تبدیلی ہے، جو مزاحمتی سیاست سامنے آرہی ہے۔

تازہ ترین