• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مسلمان کی مسلمانی لاالٰہ الا اللہ سے مشروط ہے۔ اس سے جتنا رشتہ مضبوط ہوگا، مسلمانی اسی قدر مضبوط ہوگی کیونکہ لا الٰہ الا اللہ کو خلوص سے اپنانے کے بعد انسانی قلب ہر قسم کے بتوں سے پاک اور صاف ہوجاتا ہے اور دنیاوی مفادات ہیچ لگنے لگتے ہیں۔ عام طور پر انسانی دل حرص و ہوس، اقتدار، دولت، شہرت کے بتوں سے بھرا رہتا ہے، نفسانی خواہشات کا لامتناعی سلسلہ اسے بے چین رکھتا ہے۔ یوں اس کی ساری توجہ ان خواہشات کی تکمیل پر مرکوز رہتی ہے اور ذہن سودوزیاں میں کھویا رہتا ہے۔ نفسانی خواہشات حرص و ہوس کی منازل طے کرتے کرتے چھوٹے چھوٹے بت بن جاتی ہیں۔ انسان انجانے میں ان بتوں کی پرستش میں اس قدر مصروف ہوجاتا ہے کہ ان کے حصول کے لئے جھوٹ سچ، حرام حلال اور جائز و ناجائز کی تفریق سے آزاد ہوجاتا ہے۔ خواہشات اور آرزئوں کی تکمیل میں جھوٹ سچ کی تمیز ختم ہوجائے تو سمجھ لیجئے کہ لاالٰہ الا اللہ سے رشتہ کمزور ہوچکا ہے یا منقطع ہو چکا ہے اور قلب نور الٰہی سے منور ہونے کے بجائے بت خانہ بن چکا ہے اور انسان سکون قلب سے محروم ہوچکا ہے۔ دنیاوی حرص و ہوس کے بت بے سکونی، تکبر، نفرت و انتقام، عیش و عشرت کی بے لگام خواہشات ا ور مخلوق خدا کو کمتر سمجھنے کے سفلی جذبات پیدا کرتے ہیں جنہیں صرف لاالٰہ الااللہ کے ہتھیار سے توڑا جاسکتا ہے بشرطیکہ اپنے آپ کو خلوص نیت سے لاالٰہ کے تابع کردیا جائے۔
میں نے پوچھا حضور انسان کب قلبی سکون، ذہنی اطمینان، خیال کی روشنی اور عزت پاتا ہے۔ انہوں نے فوراً بلا سوچے سمجھے جواب دیا’’جب وہ علامہ اقبال کے اس شعر کا مفہوم اس طرح سمجھ لے کہ اسے اپنی ذات پر طاری کرلے، پھر انہوں نے وہ شعر پڑھا اور جب وہ یہ شعر پڑھ رہے تھے تو ان کی آنکھوں سے چمک اور روشنی یوں برس رہی تھی جیسے بادل کڑکیں اور بجلی گرجے تو لمحوں کے لئے اجالا پھیل جاتا ہے۔ وہ شعر کیا تھا، فلسفہ زندگی تھا جسے سمجھنا آسان لیکن اپنانا نہایت مشکل ہے۔ کہنے لگے پہلے شعر سن لو، پھر تمہیں آج کی زندگی اور سیاست میں فساد، رسوائی، تذلیل اور شرمندگی کا راز سمجھ میں آجائے گا۔ علامہ نے دہائیوں قبل ایک ایسی سچائی سادہ الفاظ میں بیان کردی تھی جو قرآن مجید کی تعلیمات کا بنیادی اصول ہے، شعر ہے؎
یہ مال و دولت دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بتان وہم و گماں لا الٰہ الا اللہ
ہمارے ملک میں یہ سارا فساد کیوں برپا ہے؟ موجودہ فساد اور ذلت و رسوائی کی بنیاد مال و دولت دنیا ہے، رشتہ و پیوند ہے، اسی لئے قرآن مجید مال و دولت اور اولاد کو فتنہ قرار دیتا ہے اور اسی لئے مال و دولت اور رشتوں کو اقبال نے بتان وہم و گماں کہا ہے، جب تک انسانی جدوجہد لاالٰہ کے تابع رہے اس میں برکت الٰہی شامل رہتی ہے لیکن جب انسان مال و دولت کی حرص و ہوس کا غلام بن کر لاالٰہ کے اصولوں سے آزاد ہوجائے تو و ہ بتوں کا پجاری بن جاتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ انسان کی تدبیر کے علاوہ ایک فیکٹر مقدر کا بھی ہے اور مقدر کا بنیادی اصول یہی ہے کہ جب ہوس انتہا کی حدوں کو چھونے لگے تو تدبیریں ناکام ہوجاتی ہیں اور تقدیر کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ تقدیر کا عمل انسان کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ جس دولت و امارت کو تم عزت، شہرت اور اقتدار کا ذریعہ بنانا چاہتے ہو وہی دولت تمہاری عزت، شہرت، مقبولیت اور اقتدار کی دشمن بھی ہوسکتی ہے۔ قدرت رسی دراز کرتی ہے لیکن جب قدرت رسی کھینچتی ہے تو انسان کو اپنے علاوہ دوسروں کا بھی حساب دینا پڑتا ہے۔ پکڑ اس دنیا میں بھی ہوتی ہے اور اگلے جہان میں بھی، اگلے جہان کی پکڑ ہمیں نظر نہیں آتی جبکہ اس جہاں کی پکڑ کا تماشا ساری دنیا دیکھتی ، ہنستی اور افسوس کرتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اس سے کوئی بھی سبق حاصل نہیں کرتا۔
پھر وہ آسمان کی طرف دیکھ کر کچھ سوچنے لگے۔ میںگم سم مؤدب بیٹھا انہیں بےزبان آنکھوں سے دیکھے جارہا تھا۔ بےزبان اس لئے کہ آنکھوں کی بھی زبان ہوتی ہے جو بولتی، پیغام دیتی اور پیغام موصول کرتی ہے۔ ایک زبان وہ ہےجسے اللہ پاک نے ہمارے دانتوں کی جیل میں قید کردیا ہے اور ایک زبان اللہ پاک نے انسانی جسم کے تمام اعضاء کو عطا کردی ہے۔ ہاتھ کے اشارے بھی زبان، قدموں کی رفتار اور سمت بھی زبان، سر کے ہلنے، جھومنے اور ساکت ہونے کی بھی زبان ہوتی ہے جو غور کرنے والوں کو سنائی دیتی اور سمجھ میں آتی ہے۔ زبان کے بعد دوسری سب سے موثر زبان آنکھوں کی ہوتی ہے، اگر موجودہ فساد کے کرداروں اور ان کے حواریوں کی بولتی آنکھوں کو سنو تو تمہیں ہزارہا پیغامات ’’سنائی‘‘ دیں گے، کسی کی آنکھ میں بےبسی، پچھتاوا، انتقام، پریشانی اور غصے کے خوفناک مناظر دکھائی دیں گے تو کسی کی پھٹی پھٹی نگاہیں یہ راز فاش کرتی ہیں کہ اس کی آنکھوں اور زبان کا تعلق یا رشتہ ٹوٹ چکا ہے، وہ بول تو رہا ہے لیکن دل سے نہیں۔وفاداری کی ہوس اور عہدے کی حرص اس پر اس قدر غالب آچکی ہے کہ وہ ان کا تابع محمل اور اسیر ہوچکا ہے۔
ایک دم انہوں نے مجھے مخاطب کیا۔ ڈاکٹر صاحب میری بات یاد رکھو کہ یہ دنیاوی عزت کے دیوانے نہیں جانتے کہ ایک عزت وہ ہوتی ہے جس کا مظاہرہ دنیا کرتی ہے۔ لوگ آپ کی نگاہ التفات کے منتظر رہتے اور آپ کو ’’طلب‘‘ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ سب بتان وہم وگماں ہیں اصل عزت وہ ہوتی ہے جو خود انسان اپنی کرتا ہے۔ انسان خود اپنی عزت اس وقت کرتا ہے جب اس کا ضمیر مطمئن، قلب منور اور نیت صاف ہو، اگر انسان کو احساس ہو کہ وہ دولت کی ہوس میں اندھا ہو کر ہیرے جواہرات اکٹھے کرتا رہا ہے، دوسروں کا حق مارتا رہا ہے، لوگوں سے جھوٹ بولتا اور اقتدار کے حصول کے لئے دھوکہ دیتا رہا ہے، لوگوں کو استعمال کرکے ان کی ڈیڈ باڈیز (Dead Bodies)پر چلتا رہا ہے، قومی خزانے کو بے دریغ لٹاتا اور اقتدار کو دولت اکٹھی کرنے کے لئے استعمال کرتا رہا ہے، انسانوں کی خرید و فروخت میں ملوث رہا ہے وغیرہ وغیرہ تو ایسا انسان کبھی بھی اپنی عزت نہیں کرسکتا چاہے لوگ اسے سر پر بٹھائیں ا ور آنکھوں پر سجائیں۔ ایسا انسان دنیا کی تمام نعمتوں، سہولتوں، اقتدار اور بالادستی اور دولت کے پہاڑوں کے باوجود بے سکونی کی دھیمی دھیمی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب قلبی سکون چاہئے تو دوسروں سے عزت کروانے کی خواہش کے بجائے خود اپنی عزت کرنے کا سامان اکٹھا کرو۔
یہ دنیا، یہ زندگی درحقیقت سب کچھ فریب نظر اور وہم و گمان ہیں ۔ اس فریب نظر کے بت مال و دولت اور رشتہ و پیوند ہیں جن کی پوجا کرتے ہوئے انسان نظر نہ آنی والی بت پرستی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اقبال نے سچ کہا ہے کہ یہ سب کچھ بتان وہم و گماں ہیں۔ ا بدی اور اصلی حقیقت فقط لاالٰہ الااللہ ہے جس نے یہ راز پالیا وہ سرخرو ہوا اور جو اس راہ سے ہٹا وہ بتان و ہم و گمان کی دنیا میں گم ہو کر رسوا ہوا کیونکہ یہ مسلمانی کی پہلی شرط ہے۔ آج پاکستان میں جو فساد برپا ہےاور ذلت و رسوائی کا بازار گرم ہے جس نے ملک و قوم کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اس سارے فساد کی جڑ’’یہ مال و دولت دنیا، یہ رشتہ و پیوند‘‘ کے بتوں کی محبت اور حرص و ہوس میں پیوست ہے۔ انسان کو سچی عزت، سچی خوشی اور قلبی روشنی اسی وقت ملتی ہے جو وہ ان بتوں کو پاش پاش کرکے لاالٰہ الا اللہ کو اپنالے۔ حرص و ہوس کی دلدل میں ڈوبے ہوئے مقتدر طبقے نہ کبھی ان بتوں کی پرستش سے تائب ہوں گے نہ ہی انہیں سکون قلب نصیب ہوگا۔

تازہ ترین