• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو روز سے بادل برس رہے ہیں مگر میں اس دوران پشاور کے علاوہ بہاولپور، لودھراں اور ملتان میں کچھ وقت گزار کر واپس اسلام آباد آ گیا ہوں۔آج کل سیاست دانوں میں سینیٹ کے الیکشن زیر بحث ہیں، ان الیکشنوں میں خوب بھائو تائو ہو رہا ہے ۔کچھ بولیوں کی مجھے بھی خبر ہے مگر اس دوران میری ملاقات ایک سیاست دان سے ہوئی کہ جب اس نے سیاست شروع کی تھی تو اس کے پاس کچھ نہیں تھا مگر آج (اللہ کے فضل سے ) وہ سب کچھ ہے جسے آپ امارت کہہ سکتے ہیں۔آج اس کے بے شمار پلازوں، گھروں اور عمارات پر (ھذامن فضل ربی ) لکھا ہوا ہے ۔یہ سیاستدان حاجی صاحب ہیں، حاجی صاحب سال میں چھ سات عمرے کرتے ہیں ، ان عمروں کے دوران ان کا خاندان بھی ہوتا ہے، اب حاجی صاحب کے بیٹوں کے نام پر بھی ملک کے اندر اور باہر کئی جائیدادیں ہیں۔ناجائز آمدن سے بننے والی ان عمارات کے بارے میں جب بھی بات ہو تو حاجی صاحب کے صاحبزادے کہتے ہیں کہ یہ سب عمارتیں (اللہ کے فضل سے) ہماری ہیں۔حاجی صاحب بھی اپنے بچوں کی (خداداد صلاحیتوں) پر بہت خوش دکھائی دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ (خدا) ہمارے بچوں کی کمائی میں برکت ڈال دیتا ہے حاجی صاحب کبھی بھی اس ’’برکتے‘‘ کا نام نہیں لیتے جس کا بندوبست وہ اپنے (دست حق پرست) سے کرتے ہیں۔ حاجی صاحب سے جو ملاقات گزشتہ روز ہوئی اسے میں مکالمے کی صورت میں پیش کر رہا ہوں تاکہ آپ سمجھ سکیں کہ میری حاجی صاحب سے کیا گفتگو ہوئی۔
س:حاجی صاحب کیا حال ہیں؟
ج:حال کیا ہونے ہیں جناب، بس ان لوگوں نے ہمیں پریشان کر رکھا ہے کبھی پوچھتے ہیں یہ چیز کیسے بنی، یہ گھر کیسے بنا تو کبھی بیرون ملک جائیدادوں کا پوچھتے ہیں، آپ ہی بتائیں کہ ان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ یہ ہم جیسے شریف لوگوں سے پوچھیں ۔یہ کوئی انسانیت ہے کہ ہمیں پوچھا جا رہا ہے کہ بنک اکائونٹس کتنے ہیں، دبئی میں کیا کچھ ہے، لندن میں کیا کیا ہے، اس کے علاوہ دوچار اور ملکوں کا نام لے کر پوچھا جاتا ہے کہ یہ بتائو کہ وہاں یہ جائیدادیں کیسے بنیں، کب بنیں، ان جائیدادوں کیلئے پیسہ کہاں سے آیا، یہ کوئی اسلامی بات ہے بھلا، اسلام میں کہاں لکھا ہے کہ کوئی کسی سے جائیدادوں کا حساب پوچھے۔
س:حاجی صاحب آخر آپ کو کس نے پریشان کیا ہوا ہے، آپ کے نزدیک یہ واقعی انسانیت نہیں کہ کوئی آپ سے جائیدادوں کا پوچھے مگر آپ اسے غیر اسلامی نہ کہیں کیونکہ اسلام میں تو خلیفہ وقت سے ایک چادر کا حساب پوچھ لیا گیا تھا، اسلام میں تو خلیفہ وقت بھی قاضی کی عدالت میں پیش ہوتا رہا ہے، اصل بات بتائیں آپ کو پریشان کون کر رہا ہے ؟
ج:یہی یار جو نیب والے ہیں انہوں نے مجھے بہت ہی زیادہ پریشان کر رکھا ہے، ان کو پریشانی کا لائسنس کس نے دیا ہے حالانکہ ہمارے ایک سابق وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ’’....نیب معصوم لوگوں کو تنگ کر رہا ہے ....‘‘ یہ نیب والے اتنے ضدی ہیں کہ ان کو وزیر اعظم کی بات کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا، قوم کو چاہئے کہ ان لوگوں کو روکے کہ یہ لوگ مجھ جیسے شریف آدمی کو تنگ نہ کریں۔اب سنا ہے کہ یہ میرا اور مجھ جیسے اور لوگوں کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال رہے ہیں، کیا ہم کوئی چور ہیں، ہم نے (اللہ کے فضل سے) یہ جائیدادیں خود بنائی ہیں۔
س:حاجی صاحب !آخر آپ کا قصور کیا ہے، یہ لوگ کیوں آپ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں؟
ج:میں نے قوم کی خدمت کی ہے یہی میرا قصور ہے، میں نے 35سال پہلے سیاست شروع کی تھی ٹھیک ہے میرے پاس اس وقت کچھ نہیں تھا، میں نے اس دوران قوم کی بہت خدمت کی اور (اللہ کے فضل سے ) اس دوران میری بہت سی جائیدادیں بن گئیں، جب ملک میں بہت جائیدادیں بن گئیں تو میرے بچوں نے بیرون ملک بھی جائیدادیں بنائیں ہاں ان جائیدادوں کیلئے پیسہ میں نے دیا، آپ کو پتہ ہے کہ میں نے قوم کی بہت خدمت کی، اب بھی کر رہا ہوں اور میری کوشش ہے کہ آئندہ بھی قوم کی خدمت کروں گا، میرا قصور صرف یہی ہے کہ میں نے قوم کی خدمت کی۔
س:مگر حاجی صاحب یہ کیسی خدمت ہے کہ قوم تو اس خدمت سے غریب ہو گئی لیکن آپ امیر ترین بن گئے، اس کی کیا وجہ ہے ؟
ج:اسے آپ مقدر کا کھیل کہہ سکتے ہیں، قوم کا مقدر تھا کہ وہ غریب ہو گئی میرا اور میرے بچوں کا مقدر ہے کہ ہم امیر ترین بن گئے، ویسے بھی میرے بچوں کی کما ئی میں (خدابرکت ڈال دیتا ہے) اس لئے ہم امیر ہو گئے، باقی اس میں ناجائز والی کونسی بات ہے ۔
س:لیکن حاجی صاحب یہ کیسی خدمت ہے کہ اس سے قوم غریب ہو گئی اور آپ اور آپ کے بچے امیر ہو گئے، قوم کے بچے رل رہے ہیں اور آپ کے بچے شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں، ہر طرف غربت پھیلی ہوئی ہے اور آپ اس دوران عمرے کرتے ہیں، ایسا کیوں ہے ؟
ج:اس میں میرا قصور نہیں، یہ دراصل قوم کے مقدر کا قصور ہے، قوم اگر غریب رہی ہے تو اس میں میری کوتاہی کہاں سے آگئی، میں اور میرے بچے بھی تو اسی قوم کا حصہ ہیں، جہاں تک میرے اور میرے خاندان کے عمرے کرنے کا سوال ہے تو یہ بھی مقدر ہے وہاں جاکر ہم معافی ہی تو مانگتے ہیں ۔
س:حاجی صاحب !قوم کو لوٹ کر عمرے کرنے والوں کے عمرے کہاں منظور ہوتے ہیں، جونہی حرام رزق کے لقمے حلق سے نیچے اترتے ہیں تو دعائیں قبول نہیں ہوتیں، اب تو آپ کو حساب دینا پڑے گاآپ نے قوم کو دھوکہ دیا، قوم کو لوٹا، آپ کو اس دنیا میں بھی رسوائی ملے گی اور اگلے جہان بھی کڑے حساب سے گزرنا پڑے گا، آپ نے قوم کی امانتوں میں خیانت کی ، دراصل آپ قوم کے مجرم ہیں۔
ج:یار مت ڈرائو مجھے، ابھی تو میں ویسے بھی بیما ر ہوں، پتہ نہیں مجھے کون، کون سی بیماریاں لگ چکی ہیں، اب میں جب سوتا ہوں تو مجھے ڈرائونے خواب آتے ہیں۔آخر میں ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کا شعر سن لو کہ ؎
نہیں ملوں گی کسی بھی وصل آشنا سفر میں
میں ہجر موسم کی شدتوں میں تمہیں ملوں گی

تازہ ترین