• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نہ جانےکیوں مجھے یقین ہے کہ آپ نے کوہ قاف اور کوہ قاف کی پریوں کا ذکر ضرور سنا ہوگا ۔ بے انتہاخوبصورت کوہ قاف کی پریاں کسی کے ہاتھ نہیں لگتیں۔ بڑے بڑے مہم جو زندگی بھر ایک پری پر اپنا قبضہ جمانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مگر کوہ قاف کی پری کسی مہم جو کے ہاتھ نہیں آتی ۔ کوہ قاف کی پریاں ازل سے آزاد تھیں ، آزاد ہیں، اور ابد تک آزاد رہیں گی۔ آپ چاہے تنہا یا اپنے ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ مل کر جتنی کوششیں کرسکتے ہیں کریں۔ جتنے منصوبے بنانا چاہتے ہیں بنائیں، آپ پری کو اپنے قبضے میں نہیں لے سکتے ۔ آپ پری کے پروں سے اپنی مرضی کی پیوند کاری نہیں کر سکتے ۔یہ آپ کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔
مختلف اداروں کی طرف سے مجھے اکثر خطوط ملتے رہتے ہیں۔ خطوط زیادہ تر انگریزی اور اردو میں لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر خطوط مروج اردو میں لکھے ہوتے ہیں۔ فوراً سمجھ میں آجاتے ہیں۔ مثلاً، فلاں تاریخ، فلاں دن،اور فلاں وقت پر بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ رکھی گئی ہے۔ کچھ خطوط فوراً سمجھ میں نہیں آتے۔ مثلاً تاریخ،فلاں دن، اور فلاں وقت پر ہیئت حاکمہ کا محاورہ پڑھ کر چکرا جاتے ہیں۔ کچھ سمجھ میںنہیں آتا کہ ہیئت حاکمہ کس بلا کا نام ہے۔ مانا کہ بورڈ آف گورنرز انگریزی الفاظ ہیں۔ مگر دیگر انگریزی الفاظ کی طرح اردو نے ان الفاظ کو اپنا لیا ہے۔ جیسے:پلیٹ فارم، ٹرین، ٹکٹ، گلاس، ٹرک ، بس،سائیکل، موٹر، پمپ، پین، بجلی ، ٹیلی فون، ریڈیو، ٹیلی وژن اور اس نوعیت کے بے شمار الفاظ جو کہ اب اردو لغت کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان الفاظ کو اردو بول چال سے نکالا نہیں جاسکتا۔ ہم پوسٹ بکسpost boxکو پتر گھسیٹر نہیں کہہ سکتے ۔ کچھ کچھ عرصہ بعد اردو کی خداداد قوت وسعت کوروکنے اور اردو میں اپنی مرضی کے الفاظ ٹھونسنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہ لوگ اردو کو اپنے ایک رنگ اور ڈھنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ جیسے کوہ قاف کی پری کے پر کاٹے نہیں جاتے اور پری کے پروں سے کسی قسم کی پیوند کاری امکان سے باہر ہے، عین اسی طرح آپ اردو میں سرکاری طور پر کوئی لفظ کامیابی سے نہیں ڈال سکتے۔ایسے الفاظ کو اردو مسترد کردیتی ہے۔ انیس سوسینتالیس سے لیکر انیس سوستر تک نہ جانے کتنے بنگالی الفاظ اردو خبروں اور خبر ناموں میں ٹھونسے گئے تھے۔دلیل دی جاتی تھی کہ ایسا کرنے سے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوگی۔ جب کسی کے پاس اقتدار آجائے اور وہ حاکم وقت بن جائے تب وہ خود کو عقل کل سمجھنے لگتا ہے اور ناقابل عمل احکامات جاری کردیتا ہے۔ نتیجہ کیا نکلا؟ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ مشرقی پاکستان بن گیا بنگلہ دیش اور آج کسی کو یاد تک نہیں کہ کتنے اور کونسے بنگالی الفاظ اردو خبروں اور خبر ناموں میں ٹھونسے گئے تھے۔ سیاسی ، سماجی، معاشرتی اور اقتصادی ہم آہنگی لوگوں کو یکمشت رکھتے ہیں۔ عقیدے اور زبانیں نہیں۔ بنیادی طور پر ہرزبان مواصلاتCommunication کا موثر ذریعہ ہوتی ہے۔ کوئی زبان ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، اور یہودی نہیں ہوتی ۔ عربی زبان مسلمان بولتے ہیں، یہودی بولتے ہیں، اور لبنان کے کرسچن بھی عربی بولتے ہیں۔ خلیل جبران عیسائی تھے مگر عربی میں لکھتے تھے۔ بہت بعد میں انہوں نے انگریزی میں لکھا۔
ہیئت حاکمہ عام فہم لفظ نہیں ہے۔ بلکہ ایک اجنبی لفظ ہے۔ آپ کو یقین نہیں آئے تو دس پڑھے لکھے سمجھدار لوگوں سے پوچھ کر دیکھیں کہ ہیئت حاکمہ سے وہ کیا معنی اور کیا مطلب اخذ کرتے ہیں۔ سرکاری اردو بنانے والوں کا حکم ہے کہ لفظ ایجنڈا مسترد کردیا جائے۔ ایجنڈا کی بجائے قرطاس کار لکھا جائے۔ سیاستدان جب ہاتھ دھوکر ایک دوسرے کے پیچھے پڑ جاتے ہیں تب ایک دوسرے کے خلاف وائٹ پیپر شائع کرتے ہیں۔ اردو میں ہم عام طور پر وائٹ پیپر کو کچا چٹھا کہتے ہیں۔ کچے چٹھے میں سیاستدان ایک دوسرے کے پول کھول دیتے ہیں۔ سرکاری اردو یا دفتری اردو بنانے والوں کی طرف سے حکم آیا کہ وائٹ پیپر یا کچا چٹھا کی بجائے قرطاس ابیض لکھا جائے۔ اردو کسی ادارے نے نہیں بنائی ہے۔اردو نے کسی ایک خطے میں پرورش نہیں پائی ہے۔ اردو نے پورے ہندوستان میں پرورش پائی ہے۔ ہندوستان کے چپے چپے کو اردو نے اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے۔ برصغیر کے طول وعرض میں آپ جہاں جائیں آپ کو اردو سنائی دے گی، مگر وہاں کے لب ولہجے میں حیدرآباد دکن والوں کا لب ولہجہ دلی اور لکھنو والوں سے مختلف ہوتا ہے۔ ممبئی اور کراچی والے اپنے لب ولہجے میں اردو بولتے ہیں۔ پنجاب کے لوگ ٹھیٹھ پنجابی لہجہ میں اردو بولتے ہیں۔ اردو خود اپنے لیے الفاظ چنتی ہے۔ان الفاظ کو اپناتی ہے۔ اردو نیچرل یعنی قدرتی زبان ہے۔ اردو کا اپنا مزاج ہے۔ جو الفاظ اردو کے مزاج کے مطابق ہوتے ہیں وہ الفاظ اردو اپنا لیتی ہے۔ اور جو الفاظ اردو کے مزاج کے مطابق نہیں ہوتے ان الفاظ کو اردو مسترد کردیتی ہے۔ انگریزی کا ایک لفظ ہے بورBore۔ یعنی بیزار۔ اردو نے حیرت انگیز طور پر لفظ بور کو اپنالیا ہے۔ آپ ایک ہی کیفیت کا اظہار دو طرح سے کرسکتے ہیں۔ مثلاً، مجھے بیزاری ہورہی ہے۔ آپ اسی کیفیت کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں :۔ مجھے بوریت ہورہی ہے۔ لفظ بور سے ٹھیٹھ اردو لفظ بوریت بن گیا ہے۔ بوریت اردو کا اپنا لفظ ہے۔ اسکا انگریزی زبان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انگریزی کا ایک لفظ ہے Matchbox اردو نے انگریزی لفظ میچ بکس کو اس طرح اپنا لیا ہے، یا اپنے سانچے میں ڈھال دیا ہے کہ میچ بکس بن گیا ہے ماچس ۔آپ تلاش کرنے بیٹھیں توآپ کو اسی نوعیت کی بے شمار مثالیں مل سکتی ہیں۔ الفاظ کے چنائو میں اردو زبان اپنا فیصلہ خود کرتی ہے۔ اردو پر کسی اور کا حکم نہیں چل سکتا۔ ستر برس سے پاکستان کے حکمراں اور سیاستدان اردو کے مرہون منت رہے ہیں۔ اردو کے محتاج رہے ہیں۔ اس کے باوجود وہ لوگ اردو سے چھیڑ چھاڑ کرنے سے باز نہیں آتے۔ دفتروں میں ہم وہی اردو بولتے اور لکھتے ہیں جو اردو ہم عام آدمی روزمرہ کی زندگی میں بولتے اور لکھتے ہیں۔ مگر اب سرکار بہادر نے فیصلہ کرلیا ہے کہ عام آدمی کو دفتروں سے دور رکھنے کے لیے دفتری اردو رائج کی جائے ۔ یعنی ، قرطاس ابیض، قرطاس ترسیم، ہیئت حاکمہ، مغائرت اور قرطاس کار والی دفتری اردو تیار ہورہی ہے۔ اب دفتروں میں آپ کی اور میری اردو نہیں چلے گی ۔ دفتروں میں اب ہیئت حاکمہ والی اردو چلے گی ۔ ایسی اردو سمجھنے کے لیے ہمیں ایک عدد وکیل یا گماشتے کی ضرورت پڑے گی ۔ آپ تیار ہیں نا؟

تازہ ترین