• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گالم گلوچ، الزام تراشیاں، رعونت،سازشیں،بدترین فیصلوں نے عمران خان کی سیاست کا مکو ٹھپ دیا ہے۔
چار نشستوں( لودھراں شامل ) پر دھاندلی تحقیقات تحریک، پانامہ لیکس کیس سے ہوتی ہوئی لودھراں الیکشن کے بیلٹ باکس میں غرق ہو چکی ہے۔چار سالوں میں کونسی گالی، کیاالزام، جھوٹ، دھوکا،منافقت،سازش روا نہیں رکھی۔ چند دن پہلے رعونت،تکبر، تفاخرسے بھرے بپھرے عمران خان، نواز شریف کے جلسوں پر سیخ پا نظر آئے۔ ’’نوازشریف تمہیں چیلنج کرتا ہوں تم جس جگہ جلسے کرو گے، اگلے دن اسی جگہ جلسہ کروں گا، تمہارے سے دوگنا لوگ اکٹھے کروں گاـ‘‘۔تکرار رہی ـ’’ہم افواج پاکستان اور سپریم کورٹ کے پیچھے کھڑے ہیں‘‘۔مقصد،’’ اداروں کو باور کروانا کہ جمہور کی آواز،ردعمل کو خاطر میں نہ لائیں، نواز شریف کی درگت بنانے کا نظام جاری رکھیں‘‘۔
پاکستانی ووٹرز کو صدق دل سے انتہائی سمجھدار جانتا ہوں۔ مت بھولیں کے ووٹرز کا انتخاب تقابلی، سامنے موجود چوائس میں سے اپنا نما ئندہ چننا ہے۔ ہر الیکشن میں دھاندلی موجود، عمومی ممکنہ نتائج کبھی بھی تبدیل نہیں ہوئے۔اب جبکہ جنرل الیکشن بمشکل 5ماہ دور، تازہ بہ تازہ، لودھراں کانتیجہ تحریک انصاف کا بھیانک انجام کندہ کر چکا ہے۔باریک بینی سے نتیجہ اخذ کیا ہے، 1970 سے آج تک، جس نشست پر پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا، جیتنے کے امکانات روشن رہے۔دوسری بات 2013 کا الیکشن 2008 سے بہتر، 2008 کا الیکشن 2002 سے بہتر۔ جبکہ 1970کا الیکشن ملکی تاریخ کا بدترین الیکشن، دھاندلی کی ہر جہت کو مطمئن کر گیا۔قطع نظر کہ عمران خان کے دھرنوں، الیکشن دھاندلی تحریک، اسلام آباد لاک ڈائون، پانامہ لیکس کیس، نواز شریف کامیڈیا ٹرائل غیر معمولی اور بھرپور رہا۔دنیا جہان کی ہرگالی،ہر الزام نواز شریف اور ان کے خاندان، باپ، بھائی، بچوں کا مقدر بنی۔سوشل میڈیا پر فوٹو شاپ، ڈب کلپس لاکھوں نہیں تو ہزاروں کی تعداد میں زینت بنے۔ جس چینل، صحافی، ادارے نے عمران خان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا، مثبت تنقید کی یا بالفرض محال توازن رکھا،دشنام طرازیوں کی زد میںرہے۔ جیو جنگ پر خصوصی عنایت کہ سو فیصد تابع و مطیع کیوں نہیں۔ گالم گلوچ،الزامات کے کسب، غیر مقدس جدوجہد نے عمران خان اور ہمنواؤں سے علمی، عملی،نظریاتی استدلالی، دانشمندی، دانشوری پائیدان چھین لیا۔چنانچہ جہاں ایک طرف کمزوریوں، کوتاہیوں، نالائقیوں، کمی بیشی کا تجزیاتی نظام نہ بن پایا،اصلاح احوال نہ ہو سکی وہاں نواز شریف کو بدنام کرنے کی کوششیں بھی ناکام رہیں۔2011عمران خان کی سیاست پہلی دفعہ قرین فہم، قابل عمل بنی۔ پنپنے چمکنے کا سال ثابت ہوا۔غور طلب اتنا، سیاست میں آنے سے پہلے ورلڈ کپ کامیابی، فلاحی کام، انسان دوستی میں معتبر، باوثوق شہرت کی ہر حد ٹاپی۔
عمران خان کی خیرہ چشم کامیابیاں، معجزاتی و کرشماتی شخصیت وطنی طول و عرض اور بین الاقوامی سطح پر ہر خاص و عام کو متاثر کر چکی تھی۔اپنی کامیابیوں نے خیرہ کیا تو کوچہ سیاست میں کود پڑے۔ سادگی نے باور کروایا کہ گندے سیاستدانوں کی موجودگی میں قوم ’مسیحا‘ کے انتظار میں، ہاتھوں ہاتھ لے گی۔ اپریل 1996میںآغاز کیاتو حماقت کی حد تک مطمئن کہ اگلاالیکشن سویپ کروں گا۔1997 میں الیکشن کا سامنا ہواتو ذلت آمیز شکست مقدر بنی۔ 2002میں نواز شریف، بے نظیر غیر موجود، اکیلے دندناتے رہے، سوائے میانوالی کی نشست (جہاں کامیابی ملی) ہر جگہ ضمانتیں ضبط رہیں۔2008 میں بائیکاٹ نہ کرتے تو نتیجہ مختلف نہیں رہنا تھا۔لب لباب اتنا کہ ذاتی شہرت، کرشمہ، ورلڈ کپ کامیابی، کریڈیبلٹی، رفاہی کام کچھ بھی توکام نہ آئے کہ سیاست مختلف میدان عمل تھا۔ عوامل اور وجوہات پر غور کرنے کی صلاحیت ہوتی تو توجہ ضرور دیتے، وجوہات ڈھونڈتے کہ بالآخر 2011میں مقبولیت کے سیاسی افق پر یکدم کیوں نمایاں ہوگئے۔ذاتی مقبولیت نے تو 1996 سے پہلے بھی جھنڈے گاڑ رکھے تھے۔ وجہ معلوم ہوتی تو نئی سیاسی مقبولیت محفوظ رہتی۔ دسمبر 2011 کے سروے ( گیلپ، IRI) سب نے تحریک انصاف کو ( 34فیصد) مقبولیت کے ساتھ مسلم لیگ ن ( 27 فیصد) کو چاروں شانے چت رکھا۔
1996 سے 2012تک عمران کوسیاسی مشوروں سے مستفید رکھا۔ بری الذمہ ہوںکہ 1996سے 2012، ہر موڑ پر ہر بات، ہر شعور متعارف کروایا۔ ایک وقت تھا جب معمولی بات سمجھنے سے قاصرتھے،تب بھی ہر عمل کے اچھے برے نتائج سے خبرداررکھا۔ 2011 تک عمران استغراق سے سنتے تھے مگر سمجھ نہ پاتے تھے۔ 2012 کا آغاز،مقبولیت کا ڈنکا بجنے سے ہوا تو سننے سے انکاری ہوگئے، وزیراعظم کا عہدہ ’’ پا لیا پا لیا ‘‘، اپنا لیا۔ میرے لئے بھی وزیر اعظم کے دماغ پر دستک دینا محال ہو گیا۔ کھل کر بتایا، جہالت اورخود اعتمادی جناب کی کامیابی میں رکاوٹ رہے گی۔ عمران خان کے ساتھ سیاسی رفاقت کی ہزار داستان موجود، 16 سال پر بکھری الف لیلوی کہانی کبھی سمیٹوں گا ضرورتاکہ سند رہے۔ ایک جزوی کہانی اس لیے ضروری کہ آج کی سیاست کا ستیاناس پنہاں ہے۔ آغاز سیاست سے ہی ذاتی حملے، منفی، معاندانہ تقاریرو بیانات، فوج پر تکیہ، نالائقی جیسے شغف اپنا لیے۔ تنبیہ کی، ایسا رویہ جناب کی سیاست کوتباہ کر دے گا۔ پالیسی کی بجائے لڑائی ذاتیات تک محدود رہی تو جناب خرچ ہوجائیں گے۔ 30 اکتوبر 2011کی تقریر بنفس نفیس خود تیار کروائی، شرط ایک ہی تھی کہ پوری تقریر میں نواز شریف، زرداری پر تنقید توکجا، نام بھی نہیں لینا۔ 25 دسمبر2011 کراچی کی تقریرمیں بھی یہی فارمولا اپنایا گیا۔ یہ دو تقاریر جن میں میرا عمل دخل اور مستقبل کا لائحہ عمل نمایاں تھا۔ان دو جلسوں کا شاخسانہ کہ دسمبر 2011 کے سروے، PTI کو ن لیگ پر واضح فوقیت دے گئے۔
2012 کی عمرانی سیاست نئی دریافت مقبولیت کو ایک سال میںآدھا کر گئی۔34فیصد مقبولیت دسمبر 2012 تک سکڑ کر16 فیصد رہ گئی۔بتلایا کہ ایک دفعہ کا کھویا مقام دو بارہ نصیب نہیں ہوگا۔ عمران بضد کہ الیکشن مہم چلا کردوبارہ حاصل کر لیں گے۔ میرا کہا درست نکلا، عمران کی خوش فہمیاں، خام خیالیاں آج تک پاش پاش ہیں۔ جب سے ناکامی نامرادی گھر آباد ہوئی، نادیدہ قوتوںپر انحصار بڑھا لیا۔ عوام کو دھوکہ دینا شعار بن چکاہے۔ایمان کا حصہ بنا چکے کہ ساز باز کیے بغیرنواز شریف کو زیر کرنا ممکن نہیں۔آج کھلے عام مہرہ بن چکے۔ انہی کالموں میں لکھا تھا کہ دھرنا 2014، لاک ڈاؤن 2016 الیکشن دھاندلی تحریک، پانامہ لیکس تحریک آپکو بند گلی میں دھکیل جائیں گے۔میرا کہا سچ، ’’ بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا‘‘، عمران بھٹک چکا، آج ساری کمائی لٹا چکا۔ 2014 سے فوج اور سپریم کورٹ کے ترجمان بنے کھلے عام ہلا شیری، حوصلہ افزائی پیشہ بنا لیا ہے۔ نواز شریف کی نااہلی سے پہلے، انہی صفحات میں لکھا تھا کہ وزیر اعظم رخصتی کی صورت میںنواز شریف براستہ جی ٹی روڈ اگرلاہور آئے توکایا پلٹ دیکھیں گے۔ شاہ کی تدبیریں الٹ پلٹ، بکھری نظر آئیں گی۔نا اہلی کے بعدنامساعد حالات چار سو، بیگم کلثوم نواز کی جان لیوا بیماری بم بن کر گری۔ سفر کا آغازکٹھن، NA120 کا ضمنی الیکشن ہارنے کی صورت میں نہ صرف سیاست کا خاتمہ بلکہ جیلوں کی کال کوٹھڑی مقدر رہنی تھی۔عمران خان نے حلقے میںیہی کچھ کہا کہ’’ NA120 کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی توثیق یا نفی ہوگا‘‘۔NA120 کے فیصلے نے عدالتی فیصلہ رد کر دیا۔ تدبیروں ترکیبوں کو الٹا دیا۔ جی ٹی روڈ ریلی اور NA120 کی جیت نے نواز سیاست کو مزیدکئی چاندلگا دیئے۔ مستزاد، ملک کے طول و عرض میں جلسوں نے مزید دھاک بٹھادی۔
NA120اور پھربور جلسوں میں کوئی کسررہ گئی تو چکوال ضمنی الیکشن (PP20)نے پوری کر دی۔ اگرچہ ن لیگ کی اپنی نشست، مگراس لحاظ سے اہم کہ چکوال( شمالی پنجاب) پوٹھوہار کا سنگلاخ نمائندہ علاقہ،افواج پاکستان کی نرسری، پہلے سے زیادہ ووٹوں سے جیت نے پوٹھوہار کے طول و عرض میں ڈنکے بجا دئیے۔پوٹھوہار نے عمرانی سیاست اور عدالتی فیصلے،نادیدہ مداخلت مسترد کر دئیے۔ اللہ حق،جہانگیر ترین کی نا اہلی اور لودھراں الیکشن تو جیسے اللہ کی نواز شریف کے لئے خصوصی اسکیم بن کر آیا۔جہانگیر ترین نے اپنی جیتی سیٹ کو محفوظ بنانا تھا، نا اہلی کو غلط ثابت کرنا تھا۔25ماہ پہلے جہانگیر ترین 40ہزار ووٹوں سے یہ نشست اپنے نام کر چکے تھے۔ لودھراں سرائیکی بیلٹ کی بیرومیٹرنشست،تحریک انصاف جیت جاتی تو ن لیگ کوزیادہ سیاسی نقصان نہ پہنچتا۔ہار کی صورت میں تحریک انصاف کی سیاست کا جنازہ نکلنا تھا۔جہانگیر ترین کے پاس پیسہ پانی کی طرح بہانے کی استطاعت، ن لیگ کا امیدوار نیا نویلا،عمران خان شیخ رشید مرکزی قیادت سینکڑوں دوسرے لودھراں میں ڈیرے ڈال چکے تھے، ن لیگ کی مرکزی قیادت یادرمیانی قیادت کوسوں دور، سارا بوجھ نوجوان عبدالرحمن کانجو کواپنے ناتواں کندھوںپر اٹھانا پڑا۔سب کچھ موافق،80ہزار ووٹ سے سیٹ جیتنے کاسامان تھا۔اللہ کریم، اتنا بڑا اپ سیٹ دہائیوں سے دیکھنے کونہ ملا۔تحریک انصاف کے لئے ناکام مستقبل کا حتمی پیغام چھوڑ گیا۔ پنجاب کے فطری قدرتی تقسیم حصے بخرے بھی یہی، شمالی پنجاب (پوٹھوہار)، وسطی پنجاب (پنجابی) اور جنوبی پنجاب (سرائیکی) تینوں جگہوں کا کلچر، زبان، روایات سب مختلف۔تین حلقے،تین کہانیاں، فیصلہ ایک ہی، ن لیگ کی مضبوطی اور مقبولیت کا مستحکم اعلان کر گیا۔عدالتی فیصلوں کے اوپر عوامی ردعمل بھی جانا جائے۔اہل نظردیکھ لیں، ایک نا اہلی نے ات مچا رکھی ہے، عوام حقارت سے ٹھکرا رہے ہیں،مقدمات میں انصاف ہوتا نہ دکھا تو نتائج بھگتنے کے لئے زیادہ تیاری کرنا ہو گی۔
چند ما ہ بعد ہونے والے عام انتخابات کے لئے ن لیگ کی انتخابی مہم کااس سے بہتر آغازبھلا کیا ہو سکتا ہے؟ ڈریم اسٹارٹ، جیت کا ردھم مل گیا ہے۔ انتخابی مہم کا آغاز بتا رہا ہے،’’روک سکو تو روک لو‘‘۔1997 الیکشنکی تکرار نوشتہ دیوار بن چکی، پڑھ لیں۔چند دن پہلے برادرم حسن نثار کے گوش گزار کیا، سسٹم کی اکھاڑ پچھاڑ ہی فقط نواز شریف کو روکنے کا آزمودہ نسخہ رہ گیا ہے، اور کوئی طریقہ کار گر نہیں رہے گا۔5ماہ میں تین حلقے، تین کہانیاں، ایک نتیجہ،صوبہ پنجاب کے موڈ، مزاج کا اعلامیہ یہی تو ہے۔

تازہ ترین