• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ آف پاکستان کی نشستوں پر انتخابات کے لئے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کئے اور ان میں کچھ امیدوار دہری شہریت کے حامل ہیں جن کے کاغذات کی اسکروٹنی اور منظوری کا عمل مکمل کرنے کے لئے بعض معلومات کی تصدیق وزارت داخلہ سے ضروری ہے۔ لہٰذا 12فروری 2018کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ارجنٹ بنیادوں پر وزارت داخلہ کو ایک خط لکھ کر دہری شہریت کے حامل انتخابی امیدواروں کے بارے میں تصدیق یا انکار کی درخواست کی جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن کو ماضی میں وزارت داخلہ کی اس بارے میں خاموشی یا عدم تعاون کا ایسا تجربہ ہے کہ عدم تعاون کی وجہ سے اسکروٹنی کے عمل میں رکاوٹ کی ذمہ داری وزارت داخلہ پر عائد ہونے کا ذکر خط میں کیا جاتا ہے۔ اس خط کے علاوہ اسی 12فروری کو ایک اور تفصیلی خط الیکشن کمیشن کے ایک دوسرے مجاز افسر کی جانب سے اسی معاملے پر لکھا گیا اور پھر الیکشن کمیشن کے ترجمان ہارون شنواری کی ایک تفصیلی پریس ریلیز بھی جاری ہوئی۔ اس پریس ریلیز میں دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کے داخل کردہ کاغذات نامزدگی کے بارے میں وزارت داخلہ کے عدم تعاون کی تفصیل درج ہے جو کہ الیکشن کا موقف ہے یعنی دہری شہریت کے حامل پاکستانی امیدوار الیکشن کمیشن اور وزارت داخلہ کے درمیان بھی تنازع اور عدم تعاون کا باعث بن گئے۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو سینیٹ کی نشستوں کے لئے کون کونسی سیاسی پارٹیوں نے ٹکٹ جاری کئے؟ دہری شہریت تو دور کی بات ہے صرف پاکستانی شہریت کے حامل بیرونی ممالک میں آباد اوورسیز پاکستانیوں کو بھی اب تک پاکستان کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا بنیادی حق بھی عملاً حاصل نہیں ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کے حق میں بعض عدالتی فیصلوں کے باوجود غیرممالک میں آباد پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کے لئے کوئی میکنزم ہی موجود نہیں۔ ہر سال 12ارب ڈالرز سے زائد کا زرمبادلہ پاکستانی معیشت کو فراہم کرنے والے یہ اوورسیز یا دہری شہریت کے حامل پاکستانی مسلسل اور تمام سابقہ حکومتوں کے اس غیرمنصفانہ بلکہ ظالمانہ سلوک کا شکار ہیں، ہر حکومت نے انہیں محب وطن پاکستانی، بیرونی دنیا میں پاکستان کے سفیر، قوم کا انتہائی قیمتی اثاثہ زبانی طور پر قرار دے کر تسلی دی اور ووٹ اور نمائندگی کے حق دلانے کے وعدے بھی کئے لیکن عملاً تو پاکستان آنے پر بعض حکومتی افسروں اور جرائم مافیا نے انہیں خوب لوٹا۔ پاکستان میں خریدی گئی ان کی جائیدادوں اور اثاثوں پر قبضے کئے گئے سالہا سال تک انصاف کے لئے مقدمات التوا میں پڑے رہتے ہیں۔ ان کے دیار غیر میں قیام اور پاکستان سے عدم موجودگی کا فائدہ اٹھا کر پاکستانی ایئر پورٹس سے لے کر ان کی واپسی تک ان اوورسیز پاکستانیوں کو جس امتیازی اور ناموزوں سلوک سے گزرنا پڑتا ہے وہ ایک الگ داستان ہے۔
ہاں! اگر کوئی با اختیار شخصیت سے آپ کا رابطہ ہے آپ دہری شہریت رکھتے ہوں پھر بھی آپ کو ووٹ ڈالنے کا حق عملاً حاصل ہو یا نہ ہو آپ ووٹر بنے بغیر بھی پاکستان کے سیاسی لیڈر بن سکتے ہیں، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پرویز مشرف کے دور میں امریکہ کے ایک پاکستانی کے بارے میں نیویارک ٹائمز اور دیگر میڈیا میں بڑی تفصیلی خبریں شائع ہوئیں کہ امریکی مالیاتی مارکیٹ میں کئی ملین ڈالرز کا فراڈ کرکے وہ پاکستانی روپوش ہوگیا۔ اس کے بند فلیٹ کی تصاویر اور تفصیلات کی اشاعت نے وہاں کے پاکستانیوں کے لئے بدنامی اور شرمندگی پیدا کی کچھ عرصہ بعد میرا پاکستان آنا ہوا تو یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ وہ اس دور کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز شخصیات کی سرپرستی میں اپنی دولت کے مزے خود بھی اڑا رہا تھا اور اردگرد بھی نچھاور کررہا تھا جبکہ امریکہ میں وہ مطلوب تھا۔ اگر میری یادداشت درست ہے تو اس شخص کو پولیس کے نظام کی اصلاحات کے لئے رپورٹس اور تجاویز تیار کرنے کا کام بھی سونپا گیا اور ایک اعلیٰ اور انتہائی موثر شخصیت نے ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں شائع ہونے والی اس کے بارے میں تفصیلات کو بغیر کسی تحقیق و تصدیق کے ناقابل اعتبار قرار دیدیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس مذکورہ شخص سے کوئی حکومتی عہدہ دینے سے قبل کہا جاتا کہ وہ امریکی حکام سے ایسے تمام الزامات سے کلیئرنس حاصل کرکے دکھائے مگر اس کی بجائے سرپرستی، تحفظ اور عہدہ اس نودولتئے کے قدموں میں ڈال دیا گیا۔
دہری شہریت کے حامل اور اوورسیز پاکستانیوں کے لئے ووٹ کے حق اور نمائندگی کے بارے میں پاکستانیوں کی جانب سے مطالبہ کا آغازمرحوم فاروق لغاری صدر مملکت کے دور میں ہوا تھا وہ اپنے صاحبزادے (موجود وفاقی وزیر) اویس لغاری کی روچسٹر یونیورسٹی سے گریجویشن کے موقع پر امریکہ آئے تھے۔ نیویارک کے ایک اجتماع میں انہوں نے پاکستانیوں کے اس مطالبہ کے جواب میں اسے جائز مطالبہ قرار دیتے ہوئے وعدے کئے اس کے بعد بھی آنے والی تمام حکومتوں نے اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ اور نمائندگی کے حق میں وعدے کئے مگر آج تک صرف یہ ہوا کہ مشرف دور میں ہونے والے ایک ریفرنڈم میں پاکستانی قونصلیٹ نیویارک میں مشرف کے حامیوں نے کوئی چار سو پرچیاں ڈالیں اور چوہدری شجاعت کی وزارت عظمیٰ کے دور میں بیرون پاکستان موت کی صورت میں پی آئی اے نے میت پاکستان لے جانے کی خدمت انجام دینا شروع کردی جو اب پی آئی اے کے زوال سے منسلک اور متاثر ہے۔
آئندہ مارچ میں سینیٹ کے ہونیوالے انتخابات میں بعض دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو بعض سیاسی پارٹیوں کی جانب سے جو ٹکٹ جاری کئے گئے ہیں اس کے بارے میں چند اصولی نکات کا ذکر ضروری ہے (1) جب دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں اور اوورسیز پاکستانیوں کیلئے اپنے بنیادی حق ووٹ کے استعمال کا حق اور میکنزم ہی موجود نہیں تو کیا وہ سینیٹ کے الیکشن میں امیدوار بن سکتے ہیں؟ یعنی بنیاد ی حقوق سے انکار مگر سیاسی عہدے کے حصول کا حق؟ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماضی کی متعدد حکومتوں نے دہری شہریت اور اوورسیز پاکستانیوں کے لئے ووٹ اور نمائندگی کے حق سے قانونی انکار کے دور میں بھی دہری شہریت، گرین کارڈ ہولڈرز پاکستانیوں کو اہم سفارتی اور دیگر حکومتی عہدوں پر سیاسی تقرریاں عطا کیں۔ اب بھی کئی ایسی شخصیات دہری شہریت کے ساتھ حکومتی اہم عہدوں بلکہ سفارتی عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ (2)غیرممالک میں پاکستانیوں اور دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو اطلاع عام کے قانونی اصولی اور سیاسی تقاضے پورے کئے بغیر سیاسی پارٹیوں نے اپنے منظور نظر دہری شہریت کے حامل چند پاکستانیوں کو خاموشی سے اچانک ٹکٹ اور حمایت دے کر سینیٹ کی نشستوں پر امیدوار بنا کر کاغذات نامزدگی داخل کرادیئے اور آسٹریلیا سے لے کر مشرق وسطیٰ، یورپ، امریکہ و کینیڈا میں آباد ایسے ہی لاکھوں پاکستانیوں کو بے خبر رکھ کر ان کے حق سے محروم کردیا گیا۔ کیا یہ آئینی و قانونی مساوات کی خلاف ورزی نہیں؟ جب الیکشن کمیشن عدالتی فیصلوں کے باوجود دہری شہریت اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کے بنیادی حق کے استعمال کے لئے انتظامات نہیں کرسکا تو پھر محض سیاسی پارٹیوں اور وڈیروں کے لئے دہری شہریت والے امیدواران سینیٹ بننے کی امتیازی مراعات کا جواز کیا ہے؟
12فروری 2018کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ارجنٹ بنیادوں پر وزارت داخلہ کو بھیجے گئے خط کے مندرجات دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں سے ’’اپنوں‘‘ کے ہاتھوں سردمہری اور لاتعلقی کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ اسی روز الیکشن کمیشن نے وزارت داخلہ کو اسی موضوع پر ایک اور تفصیلی خط بھی لکھا اور بالآخر الیکشن کمیشن کے ترجمان ہارون شنوارنی کا ایک پریس ریلیز بھی جاری ہوگیا۔ الیکشن کمیشن نے سینیٹ کی نشستوں کے لئے ایسے امیدواروں کی اسکروٹنی اور کاغذات نامزدگی کی جانچ کے لئے بعض معلومات کی تصدیق کے لئے رجوع کیا تھا۔ ماضی میں الیکشن کمیشن کی ایسی درخواست کے جواب میں وزارت داخلہ نے تعاون نہیں کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں برسراقتدار آنے والی کسی بھی حکومت یا سیاسی قیادت نے اوورسیز پاکستانیوں بشمول دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو صرف زبانی اور وقتی ستائش کے علاوہ ان کی اہمیت اور افادیت کو عملاً کبھی تسلیم نہیں کیا۔ اربوں ڈالرز کا زرمبادلہ ہر سال پاکستان کو فراہم کرنے والے یہ اوورسیز پاکستانی اور دہری شہریت کے حامل پاکستانی نہ صرف پاکستانی سرزمین سے باہر رہتے ہوئے پاکستان کے امیج کو فروغ، معیشت کو فارن ایکسچینج کی فراہمی کا ذریعہ ہیں بلکہ پاکستانی حکمرانوں کی کرپشن اور غلط فیصلوں کے منفی اثرات کو زائل کرنے کا کام بھی کرتے ہیں۔ وہ الیکشن کمیشن کے 12فروری کے دونوں خطوط اور پریس ریلیز سے وزارت داخلہ اور الیکشن کمیشن کے درمیان دہری شہریت کے امیدواروں کے معاملہ میں متضاد رویے اور ناانصافیوں کا اندازہ کر سکتے ہیں۔

تازہ ترین