• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں اسپین کے خوبصورت شہر ’’ویلنسیا‘‘ میں مقیم میرے ایک دوست مہر جمشید احمد نے فون کر کے مجھے بتایا کہ یہاں سرامکس کی انٹرنیشنل نمائش منعقد ہو رہی ہے تشریف لائیں اور اِس نمائش میں شریک ہونے والے پاکستانی تاجروں سے پوچھیں کہ پاکستان سرامکس میں خود کفیل کیوں نہیں؟ وزارت صنعت و تجارت اور حکومت پاکستان سرامکس کی ’’امپورٹ‘‘ پر آر ڈی یعنی ریگولیٹری ڈیوٹی کیوں بڑھا رہی ہے؟ پاکستان میں سرامکس خاص کر ٹائلز کی ’’کھپت‘‘ ہونے کے باوجود وہاں ٹائلز کی فیکٹریوں کی تعداد زیادہ کیوں نہیں؟ پاکستانی تاجروں کو ویزے اور سفری تکالیف برداشت کر کے دوسرے ممالک میں آکر ٹائلز خریدنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ ہم نےاِن سوالات کے جواب تلاش کرنے کا تہیہ کر لیا اور بارسلونا سے ویلنسیا کی طرف روانہ ہو گئے، نمائش میں داخلے کے لئے اسپیشل پاس کا انتظام پہلے سے ہی کر لیا گیا تھا، میں جہاز کے ذریعے ویلنسیا پہنچا، بارسلونا سے ویلنسیا کا سفر صرف 45منٹ کا ہے، جہاز محو پرواز ہوا تو میں نے کچھ دیر سونے کا پروگرام بنایا، اس سے پہلے کہ میری آنکھ لگتی۔ اعلان ہوا کہ ہم ویلنسیا اُتر رہے ہیں، ایئر پورٹ پر دوست انتظار کر رہے تھے، ایئر پورٹ سے ہم نمائش کی طرف نکل پڑے، ویلنسیا فیریا نامی مقام پر یہ نمائش منعقد کی گئی تھی، نمائش میں دُنیا بھر سے سرامکس اور ٹائلز کا کاروبار کرنے والے اپنی اپنی کمپنی کی نمائندگی کرنے پہنچے جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ مختلف اسٹالز پر ٹائلز کی خریداری میں مصروف تھے۔ میں بھی مختلف راستوں سے ہوتا ہوا سپین کی بڑی کمپنیز کے اسٹالز پر پہنچا جہاں میں نے اُن کمپنی مالکان سے بات کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ لوگ ٹائلز بنانے کے ماہر ہیں، آپ کی ٹائلز کا معیار ساری دُنیا مانتی ہے، پاکستان سے سیکڑوں تاجر ہسپانوی ٹائلز خریدنے یہاں آتے ہیں، پاکستان میں آپ لوگ فیکٹری کیوں نہیں لگاتے؟ وہاں مزدوری بھی سستی ہے اور گاہک بھی بہت ہیں؟ اِس کے جواب میں کہا گیا کہ ہم نے کوشش کی تھی پاکستان میں ٹائلز کی فیکٹریاں لگانے کی لیکن وہاں ہمارے ساتھ تعاون نہیں کیا گیا، مختلف دفتروں کے چکر کاٹے، این او سی یہاں سے بنے گا، دوسرا اجازت نامہ کہیں اور سے ملے گا وغیرہ اس طرح کے جھنجھٹ کی وجہ سے ہم نے واپسی میں غنیمت جانی۔ دُنیا میں ٹائلز بنانے والے ممالک میں تھائی لینڈ پہلے، اسپین دوسرے، انڈونیشیا تیسرے، سعودی عرب چوتھے، آسٹریا پانچویں، ترکی چھٹے، انڈیا ساتویں اور اسی طرح پیرو، برازیل، میکسیکو، ملائشیا، سائوتھ افریقہ اور کولمبیا جیسے ممالک کا نمبر آ تا ہے، ترتیب سے بنائی گئی پچیس ممالک کی اس لسٹ میں پاکستان کا شمار کہیں بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں سرامکس بنانے والی پانچ فیکٹریاں ہیں، ایران کی آبادی پاکستان سے کہیں کم ہے لیکن وہاں سرامکس اور ٹائلز کی دو سو کے قریب فیکٹریاں ہیں، یہی نہیں بلکہ انڈیا ٹائلز کی پروڈکشن میں کہیں آگے ہے، یہ ممالک ٹائلز کی ڈیمانڈ کو اپنے اپنے ملکوں سے ہی پورا کرتے ہیں، اسپین میں سرامکس کی سینکڑوں فیکٹریاں ہیں، پاکستان میں ٹائلز کی کھپت بہت زیادہ ہے لیکن وہاں فیکٹریاں کم ہونے کی وجہ سے دوسرے ممالک سے مال خریدا جاتا ہے لیکن اس عمل یعنی ’’امپورٹ‘‘ پر ڈیوٹی اتنی زیادہ ہے جس سے مال آٹو میٹنک مہنگا ہو جاتا ہے اور اس عمل کا خمیازہ گاہک کو بھگتنا پڑتا ہے۔ امپورٹ ٹائلز پر آر ڈی، کسٹم ڈیوٹی، انکم ٹیکس اور کچھ مختلف ٹیکس ڈال کر مال انتہائی مہنگا ہو جاتا ہے، اسپین سے پاکستانی چار سو روپے میٹر خریدی جانے والی ٹائلز کو پاکستان میں سولہ سو روپے میٹر تک بیچا جاتا ہے اور اس کی وجہ صرف اور صرف امپورٹ ڈیوٹی کی زیادتی ہے۔ اِس حوالے سے میری بات کمرشل قونصلر میڈرڈ ڈاکٹر حامد سے ہوئی، اُن سے پوچھا کہ ایسی نمائشوں کا اعلان حکومتی گزٹ میں ہونا چاہئے تو انہوں نے کہا کہ ہم نے متعلقہ وزارت کو لکھا ہے کہ وہ اتنی بڑی نمائشوں کا اعلان سرکاری طور پر کرے تاکہ پاکستانی تاجران زیادہ تعداد میں یہاں آکر پاکستان کے لئے خریداری کرسکیں اور پاکستان کے گاہک کو کوالٹی والا مال مل سکے۔ ٹائلز کا استعمال ’’ٹوائلٹس‘‘ میں حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے تاکہ بیت الخلا جراثیم سے پاک رہے۔ نمائش میں آنے والے تاجروں نے ہمیں بتایا کہ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ ہر روز امپورٹ ڈیوٹی بڑھانے کے بجائے اسپین کے ٹائلز فیکٹری مالکان سے معاہدہ کریں، انہیں پاکستان میں فیکٹریاں لگانے کی ترغیب دیں، انہیں وہاں سہولتیں دینے کا وعدہ کریں ایسا کرنے سے پاکستان کا قومی خزانہ سیراب ہوگا۔ تاجران بڑے دُکھی لہجے میں بتا رہے تھے کہ ’’کلے مٹی‘‘ اسٹون کرش، گل ایز اور پگمنٹ (رنگ) یہ بنیادی اشیاء ہیں جو ٹائل بنانے کے کام آتی ہیں یہ پاکستان میں بنائی جا سکتی ہیں، وزارت صنعت و تجارت کو چاہئے کہ وہ پاکستان میں سرامکس ( ٹائلز ) کے کاروبار کو فروغ دینے کی پالیسیاں بنائے، پاکستانی تاجروں کو سہولت مہیا کرے اور کوشش کرے کہ ٹائلز کی فیکٹریاں پاکستان میں بنیں کیونکہ یہ منافع بخش کام ہے اور اِس کاروبار میں پاکستان بہت جلد خود کفیل ہو سکتا ہے۔ پاکستانی تاجران نے کہا کہ دوسرے ممالک میں ہمارے سفارت خانوں کو چاہئے کہ وہ ہر شعبے کے ایکسپرٹس کو پاکستان جا کر سرمایہ کاری کی ترغیب دیں، انہیں پاکستان کے بارے میں معلومات فراہم کریں اور ایسی نمائشوں کی تشہیر کریں جہاں سے پاکستانی تاجر منافع بخش مال خرید سکیں۔ یہاں یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ ٹائلز کو شہروں کے ساتھ ساتھ گاؤں اور دور دراز علاقوں میں ’’پروموٹ‘‘ کرے کیونکہ یورپ کے ہر گھر کے باتھ رُوم میں ٹائلز استعمال کی جاتی ہیں جبکہ انڈیا میں ٹائلز استعمال کرنے کی شرح یورپ سے آدھی ہے جبکہ پاکستان میں یہی شرح انڈیا سے بھی نصف ہے، بیت الخلاوں میں ٹائلز کے استعمال کا شعور دینا پاکستان کے اُن اداروں کی ذمہ داری ہے جو حکومت نے خصوصی طور پر بنائے ہیں۔ باتھ رومز میں اگر ٹائل نہ لگائی جائے تو زمین پر کچھ مسام رہ جاتے ہیں جن میں گند پھنس جاتا ہے جو جراثیم کی صورت میں بیماریوں کا باعث بنتا ہے، لیکن جہاں ٹائلز لگائی جائیں وہاں گندنہیں رہتا، حکومت پاکستان کو صحت کے اُصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹائلز کی امپورٹ ڈیوٹی کم کرنے کی بھی ضرورت ہے جب ڈیوٹی کم ہو گی تو امپورٹڈ ٹائلز مناسب قیمت میں پاکستانی عوام خرید سکیں گے۔

تازہ ترین