• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی جسم میں کسی عارضے کے سبب ناکارہ ہو جانے والے اعضائے رئیسہ کی جگہ صحت مند اعضاء کی پیوند کاری سائنسی تحقیق کا ایک عظیم الشان کارنامہ تھا جس سے دنیا میں لاکھوں ضرورت مند فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن انسانیت کے دشمنوں نے اسے بھی گھنائونے کاروبار کی شکل دے دی ہے ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں اس وقت انسانی اعضاء کی غیر قانونی تجارت سے اربوں ڈالر کمائے جا رہے ہیں اور یہ دھندہ پاکستان سمیت متعدد ممالک میں ہوتا ہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ خرید وفروخت گردوں کی ہو رہی ہے جو اعضاء کے ناجائز کاروبار کا75فیصد ہے نو سر باز غریب اور نادار لوگوں کی مالی مشکلات سے فائدہ اٹھا کر ان کے گردے معمولی قیمت کے عوض خرید لیتے ہیں یا زبردستی نکال لیتے ہیں۔ حتیٰ کہ قبریں اکھاڑ کر تازہ مردوں کے اعضاء بھی چوری کر لیتے ہیں۔ گزشتہ سال لاہور، ملتان اور مری میں یہ مکروہ دھندہ کرنے والے گروہ پکڑے گئے تھے تحقیقات سے پتہ چلا کہ وہ بیرونی ممالک سے بھی مریضوں کو پاکستان بلاتے ہیں اور 5ہزار میں خریدا ہوا گردہ دو لاکھ ڈالر تک میں انہیں بیچ دیتے ہیں۔ اس غیر قانونی کاروبار میں بعض ڈاکٹر بھی ملوث ہیں۔ گردوں کے علاوہ دل، جگر، پھیپھڑوں، آنتوں، آنکھوں کے قرنیہ سمیت کئی دوسرے اعضاء کا بھی غیر قانونی کاروبار ہو رہا ہے اس سلسلے کا تازہ افسوسناک واقعہ حافظ آباد میں سامنے آیا جہاں پنجاب پولیس درجن سے زائد نوجوان لڑکیوں کی ریڑھ کی ہڈی کا گودا نکالنے میں ملوث نوسر بازوں کا نیٹ ورک توڑنے میں کامیاب ہو گئی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 2010میں 95ممالک میں ایک لاکھ سے زائد اعضاء کی پیوند کاری ہوئی جن میں سے قانونی آپریشنز کی تعداد صرف ایک تہائی تھی جو عطیات میں لئے گئے اعضاء سے ہوئی۔ اعضاء کی غیر قانونی تجارت میں پاکستان کا نام بھی نمایاں ہے اور وہ دنیا بھر میں بدنام ہو رہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ متعلقہ اداروں کو متحرک کر کے اس مکروہ کاروبار کا قلع قمع کرے اور مجرموں کو عبرتناک سزائیں دلوائے۔

تازہ ترین