• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے،جس میں سب سے زیادہ تعداد نوجوانوں اوربچوں کی ہے۔چھوٹے شہروں اوردیہات میں غربت اوربے روزگاری کے ہاتھوں مجبور بیمار،ناتواں یاپھر کام چور نشئی والدین کااپنےبچوں کوکام پربھیجنا عام بات ہے جسے قانون کی زبان میں جبری مشقت کانام دیا جاتا ہے اینٹوں کے بھٹوں سے لیکرمختلف ورکشاپوں اورہوٹلوں پرکام کرنے والے بچے چار پانچ سال کی عمر میں گھر سے نکال دیئے جاتے ہیں۔ان میں سے ایک بڑی تعداد ان بچوں کی بھی ہے جو لوگوں کے گھروں میںکام کرتے ہیں،پٹتے ہیں،تشدد کا سامنا بھی کرتے ہیں یہاں تک کہ بہت سے بچے جنسی زیادتی کابھی شکار بنتے ہیں۔ماہرین نفسیات کاکہنا ہے کہ بچوں کے ساتھ ہونے والے تشدد اورجنسی زیادتی کاحل صرف قانون بنا دینے میں نہیں،اس کےلئے بہت سے دیگر سماجی اقدامات کی بھی ضرورت ہے ان میں سرفہرست عنصرذمہ دار والدین اوراساتذہ کا بچوں کے لئے تعمیری کردار ہے۔بچوں سے زیادتی ،جبری مشقت،تشدد جیسے واقعات کے خلاف دنیا بھر میں قوانین موجود ہیں اوران پرموثر انداز میں عمل بھی ہورہاہے جہاں عمل نہیں ہوتا وہاں قصوراور مردان جیسے واقعات کارونما ہونا تعجب خیز نہیں۔قومی اسمبلی نے اس حوالے سے موجودہ قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے فوجداری ترمیمی ایکٹ2017منظور کیاہے جس کے تحت بچوں سے جنسی زیادتی کی سزا دوسال اورسات سال کو بڑھا کر14سے20سال کردی گئی ہے ساتھ ہی جرمانے کی رقم بڑھاکر10لاکھ روپے کی گئی ہے۔اس بل کامقصد بچوں سے فحش حرکات اورنابالغوں سے جنسی زیادتی کی سزا میں اضافہ کرنا ہے۔بل کی حتمی منظوری کے بعد اس کاموثر نفاذ ہی اصل چیلنج ہے اس کےلئے ارباب بست وکشاد اورقانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کواپنے گرد وپیش کڑی نظر رکھنا ہوگی تاکہ اس لعنت کی بیخ کنی ہوسکے۔

تازہ ترین