• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چھوٹے صوبوں کو ہمیشہ شکایت رہی کہ پنجاب کے وزیر اعظم کے خلاف پنجابی جنرل۔ پنجابی جج ایکشن نہیں لیتے۔ اس وقت دیکھیں کہ پنجاب کے جج پنجاب کے طاقت ور خاندان کے خلاف فیصلے دے رہے ہیں۔ نیب بھی سب سے زیادہ کارروائیاں پنجاب میں کررہا ہے۔ چھوٹے صوبے اب اس کارروائی کی تعریف نہیں کررہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بلوچستان،سندھ اورکے پی کے قوم پرست پنجاب کی لیڈر شپ کے ساتھ ہیں۔ میاں نواز شریف نے مزاحمت کرکے صرف پنجاب کے دلوں میں ہی نہیں دوسرے صوبوں کے دلوں میں بھی جگہ بنالی ہے۔
لیکن مقصود جب اوّل و آخر صرف تالیاں بجوانا ہو۔ نعرے لگوانا ہو تو جھوٹ بھی بولناپڑتا ہے۔ شیخی بھی بگھارنا پڑتی ہے۔ اس سب کچھ کا دعویٰ کرنا پڑتا ہے۔ جس کا عشر عشیر بھی نہیں کیا ہوتا۔
یہ سب کررہے ہیں۔ ہر طرف ہورہا ہے۔
پہلے یہ جلسوں میں ہوا کرتا تھا۔ بیانات میں۔ اب یہ کم بخت ٹویٹ ہاتھ لگ گیا ہے۔ بیٹھے بیٹھے اس پر انگلیاں چل جاتی ہیں۔ آپ نہ بھی چاہیں کمپیوٹر از خود ایسے الفاظ آپ کے سامنے لے آتا ہے کہ آپ کے وفادار درباری ، خوشامدی بھی کیا ذخیرہ الفاظ استعمال کرتے ہوں گے۔ جہازی سائز کے اشتہارات میرے اور آپ کے ٹیکسوں کی رقم سے۔ اپنی تصویروں کے ساتھ۔
ایسے میں ضروری نہیں کہ ملک واقعی ترقی کررہا ہو۔
یہ تو اللہ تعالیٰ نے بھی کہا ہے کہ انسان کے لیے وہی ہے جس کے لیے کوشش کی جائے۔ نتیجہ بھی اس کا نکلتا ہے۔ جس کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔ کوشش ہی صرف تالیاں بجوانے کے لیے کی جارہی ہے۔ تو تالیاں ہی بجیں گی۔ میں بھی جب یہ الفاظ رقم کررہا ہوں ۔ میری خواہش بھی یہی ہے کہ کچھ تعریفی ایس ایم ایس آجائیں۔ ایک دو ای میل چلی آئیں۔ بازار سے گزر رہا ہوں یا مسجد میں نماز ادا کررہا ہوں تو دل میں یہ انتظار ہوتا ہے کہ کوئی آکر کہے آج کا کالم آپ کا بہت اچھا تھا۔
لیڈر خود اپنی تعریف کرتا ہے۔ کہا ہے کہ میں ایک نظریہ بن گیا ہوں۔ کسی کا کہنا ہے ۔ مجھ سے پہلے کسی نے کرپشن کے خلاف بات ہی نہیں کی تھی۔ کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ ہم جب چاہیں وفاقی حکومت گراسکتے ہیں۔
اپنی اپنی پارٹی کی مدح سرائی ہوتی ہے۔ اپنے قائد کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں اپنے ادارے کی ثنا خوانی ہورہی ہے۔ مملکت کی بات کوئی نہیں کرتا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں غیر معمولی عظیم مملکت عطا کی ہے ، جس کی جغرافیائی حیثیت بالکل منفرد۔ جنوبی ایشیا کے لیے ہم دروازہ۔ وسطی ایشیا کے لیے ہم راہداری۔ مشرق وسطیٰ کے لیے ہم راستہ۔ قدرت کی دوسری بڑی عنایت، ہماری نوجوان آبادی۔ ایک اندازے کے مطابق 15سے 30سال کی عمر کے توانا پاکستانی 60فی صد کے قریب ہیں۔ ہم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائیں گے۔ معدنی دولت بے حساب۔ اس حسین سر زمین کو اللہ تعالیٰ نے چاروں بلکہ کچھ زیادہ ہی موسم عطا کیے ہیں۔ ہماری اس عظیم وطن میں ہر قسم کے زمینی مناظر موجود ہیں۔ میدان۔ سرسبز وادیاں۔ خشک پہاڑ۔ ہرے بھرے کوہسار۔ دریا۔ سمندر۔سینکڑوں میل لمبی ساحلی پٹی۔
آٹھ ہزار سال پرانی تہذیب۔ ڈیڑھ ہزار سال سے اسلام کی آغوش۔ انتہائی محنتی ہم وطن۔ مشکلات برداشت کرنے والے۔ صابر شاکر بزرگ۔ نوجوان۔ مائیں۔ بہنیں۔ سب دن رات جدو جہد میں مصروف۔ تعریف کے قابل ہے یہ زمین۔ لائق مدح ہیں اس کے بیٹے۔ لیکن اس کی تحسین بہت ہی کم سننے میں آتی ہے۔
ادارے۔ اداروں کے سربراہ سب اپنی تعریف کررہے ہیں۔ ہر روز یہ اپنے ہی ادارے ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اپنی اچھائی۔ باقی سب کی برائی۔ ایسے ایسے دعوے کہ رزقِ حلال تو صرف وہ ادارہ کھاتا ہے۔ باقی سب بد عنوانیوں میں ملوث ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ہم سے زیادہ کوئی طاقت ور نہیں۔
یہ بھلادیا جاتا ہے کہ مقابلہ آپس میں نہیں ہے۔ مقابلہ دوسری قوموں سے ہے۔ سامنا ہمسایہ ملکوں کا کرنا ہے اور یہ مقابلہ اکیلے اکیلے نہیں، سارے ادارے مل کر کریں گے۔ دوسرے بہت تیزی سے آگے نکل رہے ہیں۔ ہم آپس کے مقابلے اور دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔سارے ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر طے شدہ اصولوں اور قوانین کے مطابق اپنے فرائض انجام دیں گے۔ تب ہی من حیث القوم ہم آگے بڑھ سکیں گے۔ ترقی یافتہ قوموں کی صف میں اپنا مقام بناسکیں گے۔
اگر کوئی ادارہ واقعی اپنا کام ذمہ داری سے انجام دے رہا ہے تو وہ کسی دوسرے پر یا قوم پر احسان نہیں کررہا ہے۔ اپنا فرض ادا کررہا ہے۔ اس میں بڑائی اور تعلّی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں کوئی تنازع یا دو رائے نہیں ہوسکتی، ایک جمہوری ملک میں سب سے بالاتر پارلیمنٹ ہے۔ وہاں اس ملک کے اصل مالکوں یعنی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والے بیٹھتے ہیں۔ قانون بناتے ہیں۔ انہیں قانون سازی کا اختیار بھی ہے اور یہ جانچنے کا بھی کہ ان قوانین پر عمل درآمد ہورہا ہے یا نہیں۔جو ادارے یا افراد قانون کی تعمیل نہیں کرتے ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی کا اختیار بھی پارلیمنٹ کو ہے۔لیکن سب سے زیادہ ضروری تو یہ ہے کہ پارلیمان کے ارکان خود ملک کے قوانین کی پابندی کریں۔ صرف اس لیے قانون سے بالاتر نہیں ہوسکتے کہ وہ ووٹ لے کر یہاں پہنچے ہیں۔ ووٹ کو یقیناََ عزت ملنی چاہئے۔ لیکن سب سے زیادہ ووٹ کی عزت کا مظاہرہ ووٹ لینے والے کو کرنا چاہئے ۔ وہ اس طرح کہ وہ ووٹ دینے والے کو الیکشن کے دن کے بعد بھول نہ جائیں۔ ووٹر کی عزت کریں گے تو ووٹ کو بھی عزت ملے گی۔
اداروں کو مقابلہ کرنا ہے تو انہیں اپنی کارکردگی کا مقابلہ ترقی یافتہ ملکوں کے متعلقہ اداروں سے کرنا چاہئے۔ پارلیمنٹ اپنے گریبان میں جھانکے۔ برطانیہ۔ فرانس۔ امریکہ۔ ڈنمارک۔ اسرائیل۔ انڈیا کی پارلیمانوں کی کارگزاری دیکھے۔ عدلیہ۔ امریکہ۔برطانیہ۔ انڈیا۔ فرانس۔ جرمنی کی عدالتوں کے فیصلے اور مقدمات کی سماعت کی مدتیں دیکھے۔ ذیلی عدلیہ جہاں عوام کی اکثریت مسائل سے دوچار ہوتی ہے وہ برطانیہ ، فرانس، کینیڈا، امریکہ، بلجیم کی ذیلی عدالتوں کی کارروائیاں دیکھے۔ ہماری فوج امریکہ، برطانیہ، جرمنی، ترکی، کینیڈا کی فوج سے اپنا موازنہ کریں۔ اسی طرح میڈیا آپس میں مقابلے اور ایک دوسرے پر الزامات کی بجائے امریکہ، برطانیہ، جرمنی، ناروے کے میڈیا کو دیکھے کہ وہ عوام کے جاننے کے حق کو کس طرح ادا کررہے ہیں۔70سال سے تالیاں بجوائی جارہی ہیں۔ نعرے لگوائے جارہے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ الگ الگ تالیاں بجوانے کی بجائے سب ادارے مل کر آگے قدم بڑھائیں کہ دُنیا عش عش کر اُٹھے۔

تازہ ترین