• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مارچ 1997ء میں پہلی دفعہ محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ سے ملاقات کے لیے گلبرگ میں اُن کی رہائش سے متصل دفتر گیا تو اس درویش کے لیے یہ بات دلچسپ حیرت والی تھی کہ سب لوگ اُن کا ذکر ’’بی بی‘‘ کہتے ہوئے کر رہے تھے، ’’عاصمہ بی بی‘‘۔ میرے ذہن میں تھا کہ ویسٹرن سولائزیشن کے زیر اثر سب انہیں میڈم کہتے ہوں گے۔ بات اگرچہ معمولی تھی لیکن تھی دلچسپ۔ میری اُن کے والد مرحوم ملک غلام جیلانی صاحب سے اپنائیت تھی جو بلاشبہ ایک ہمہ پہلو بڑے انسان تھے اور شاید یہ انہی کی تربیت تھی کہ محترمہ عاصمہ بی بی اس مقام کو پہنچیں۔ آج اُن کا احترام جس قدر پی پی کے حلقوں میں ہے اُسی قدر ن لیگ کی قیادت اور پارٹی ورکرز میں بھی عقیدت مندی کے ساتھ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا مودودی محترمہ عاصمہ بی بی کے والد مرحوم کا جس قدر احترام کرتے رہے اُن کے بیٹے سید حیدر فاروق بھی ویسا ہی احترام محترمہ عاصمہ بی بی کا عمر بھر کرتے پائے گئے اور بی بی کی نماز جنازہ پڑھانے کی سعادت بھی انہی کو حاصل ہوئی۔ علاوہ ازیں وطنِ عزیز کے علمی ادبی اور صحافتی حلقوں میں بھی انہیں ان کی خدمات کی وجہ سے بہت احترام ملا۔ محض اکیس سال کی عمر میں انہوں نے اپنے والد مرحوم کا کیس سپریم جوڈیشری میں جس پامردی سے لڑا وہ انہیں امر بنا گیا۔ جسٹس حمودالرحمٰن کا تحریر کردہ فیصلہ اس کا بین ثبوت ہے۔
وطنِ عزیز کے قانون دان طبقے میں اُن کا اس قدر احترام تھا کہ کسی میں اُن سے اختلاف کرنے کا یارا نہیں تھا۔جب وہ سپریم کورٹ بار کی صدر منتخب ہوئیں تو درویش نے انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس آرزو کا اظہار کیا کہ وہ پہلی خاتون صدرِ مملکت بھی منتخب ہوں اگر زندگی وفا کرتی تو یہ سوچ آنے والے دنوں میں حقیقت کا روپ دھار سکتی تھی لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہ ان دنیوی عہدوں سے کہیں بلند تر انسانی خدمت کے اُس مقام پر فائز ہو چکی تھیں جس کے سامنے یہ تمام عہدے ہیچ ہیں۔ ویمن رائٹس یا آنر کلنگ کے خلاف آواز اٹھانے پر انہیں ویسٹرن سولائزیشن کا نمائندہ یا ترجمان قرار دیا گیا جو مغربی دنیا میں پاکستان کو بدنام کروانے پر تلی بیٹھی ہے۔ جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے لیے انہوں نے جب انڈیا دشمنی ختم کرنے کی سوچ کو ابھارا تو انہیں وطن دشمنی اور انڈیا کی ایجنٹ تک کہا گیا مگر سلام ہے اس عظیم خاتون کے ولولے اور پہاڑ جیسے عزم و ہمت پر، تمام تر الزامات کی بوچھاڑ اور قیدو بند کی صعوبتیں اس کے پائے استقلال میں لرزش پیدا کرنے سے قاصر رہیں۔
وہ اتنی بہادر نڈر اور ولولہ انگیز خاتون تھیں کہ کوئی بہادر سے بہادر مرد بھی ان کا ثانی نہ ہوگا۔ بڑے بڑے لیڈر بھی اُن سے حوصلہ پاتے تھے۔ اتنی بے باکی سے اتنا واضح اور ٹھوس بولتی تھیں کہ بڑوں بڑوں کی بولتی بند ہو جاتی تھی۔ اُن کی آواز میں ایک وقار اور الفاظ میں ایک کاٹ تھی۔ حدود آرڈیننس سے لے کر بلاسفیمی لاز کی منسوخی تک وہ ہر امتیازی قانون کو خلافِ آئین قرار دیتے ہوئے استحصال کا نام دیتی تھیں۔ وہ ایسی بے چین روح تھیں جو پاکستان کو ماڈریٹ ترقی یافتہ سیکولر اور خوشحال ملک کی حیثیت سے دیکھنا چاہتی تھیں جہاں مذہب نسل اور جنس کی بنیاد پر کسی کا استحصال نہ ہو خواتین اور اقلیتوں کو برابری کے حقوق حاصل ہوں۔ فکری آزادیوں کے ساتھ وہ آزادیٔ اظہار کی علمبردار تھیں۔ اتوار کی صبح جب شامی صاحب نے فون پر یہ کہا کہ ’’ذرا اس خبر کی تصدیق کیجئے کہ کیا عاصمہ جہانگیر وفات پا گئی ہیں‘‘ تو دل کو چوٹ لگی تب تک بہت سے دوستوں کو علم نہیں تھا۔ تصدیق ہونے پر شامی صاحب کو جوابی فون کیا تو وہ بھی بہت دلگرفتہ تھے وہ اُن کے ساتھ اور ان کے والد محترم کے ساتھ بیتی یادوں کے واقعات سناتے رہے مثلاً ایک دن انہوں نے کہا کہ شامی صاحب اگر رائیٹسٹ آپ جیسے ہوں تو پھر رائیٹ لیفٹ کا کوئی جھگڑا باقی نہیں رہ جاتا۔
چلے تو ہم سب نے جانا ہے مگر عاصمہ بی بی کی موت کا غم بہت دردناک ہے یہ اُن کے جانے کا وقت ہرگز نہیں تھا۔ ملک و قوم کو ہنوز اُن کی بہت ضرورت تھی۔ علامہ صدیق اظہر نے کچھ عرصہ قبل اُن کے کینسر کا ضرور بتایا تھا مگر یہ بھی کہا تھا کہ وہ اب کافی کنٹرول ہو چکا ہے۔ اُن کی آواز یا بول چال سے بھی ہرگز یہ خیال نہیں ہوتا تھا کہ انہوں نے اس قدر اچانک چلے جانا ہے۔ ہمارا گمان ہے کہ وطنِ عزیز کے موجودہ حالات کے تناظر میں عاصمہ جہانگیر صاحبہ کی موت کا سب سے زیادہ نقصان نواز شریف کو پہنچا ہے ہماری قومی سیاست میں وہ ان کا مقدمہ جس بےباکی اور دلائل کے ہتھیاروں سے لڑ رہی تھیں وہ لاجواب تھا۔ ملک کے دبے ہوئے طبقات بالخصوص اقلیتوں اور غریب خواتین کے حقوق کی بھی وہ عدالتی اور معاشرتی ہر دو حوالوں سے سرپرست و وکیل تھیں بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ وہ پاکستان کے تمام سیکولر اور لبرل خواتین و حضرات کی فکری امامت و قیادت کے مقام جلیلہ پر فائز تھیں۔ اُن کے یوں اچانک چلے جانے سے فکری و نظری ہی نہیں عملی ترجمانی کے لیے بھی بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ آخر میں ہم محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کے جنازے کا احوال بیان کرتے ہوئے تین خوبصورتیوں کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں اول یہ کہ ہم نے زندگی میں پہلی مرتبہ کسی جنازے میں خواتین کی اس قدر دلسوزی کے ساتھ شرکت ملاحظہ کی ہے، دوسرے اس میں اقلیتی نمائندگی ہوئی ہے، تیسرے ان کی گردن ٹیڑھی نہیں کی گئی ہے۔ ہمیں روز اول یہ بتایا گیا تھا کہ اچھائی و دانائی تو آپ کی اپنی گمشدہ متاع ہے لہٰذا یہ جہاں سے بھی ملے اسے اٹھا لو۔ مرحومہ عاصمہ بی بی زندگی بھر تمام مذاہب کا احترام کرتی رہیں تو تمام مذاہب والے اُن کے احترام میں کھڑے تھے۔ نسلی طور پر تمام صوبوں کی نمائندگی موجود تھی وہ بلوچوں اور پختونوں کے حقوق کی بات کرتی تھیں، وہ باچا کی تعلیمات کے حوالے دیتی تھیں، وہ عمر بھر خواتین کے حقوق کی بازیابی کے لیے لڑیں اس لئے خواتین اُن کی نمازِ جنازہ میں مردوں کے بین بین کھڑی تھیں۔ بھیگی آنکھوں اور بہتے آنسوئوں کے ساتھ وہ اپنی قائد کو الوداعی سلام پیش کر رہی تھیں۔ وہ اپنی مثال آپ تھیں ان جیسا کوئی نہ تھا موجودہ حالات میں ملک و قوم کو ان کی شدید ضرورت تھی۔ وطنِ عزیز کا روشن چہرہ نکھارنے کی ان گنت کاوشوں پر ان کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ ہونی چاہئے تھی۔ دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں اس پر متفق تھیں مگر شاید کسی تیسری طاقت کی طرف سے اس کی اجازت نہیں ملی۔
آسماں تری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزئہ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

تازہ ترین