• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قانون میں تبدیلی کئے بغیر سرعام پھانسی دی جاسکتی ہے

One Can Be Executed Without Changing The Law

رپورٹ:انصار عباسی...اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) نے بدھ کو باضابطہ طور پر سینیٹ پاکستان کو مطلع کیا ہے کہ کسی بھی قانون میں تبدیلی کیے بغیر حکومت یا عدالت کسی مجرم کو سر عام پھانسی کی سزا دے سکتی ہے۔

سی آئی آئی کا مزید کہنا ہے کہ اسلامی سزائوں کا مقصد معاشرے میں جرائم کیخلاف مزاحمت پیدا کرنا ہے۔ سینیٹ کی جانب سے سر عام پھانسی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال سے سی آئی آئی نے بدھ کو باضابطہ طور پر ایوانِ بالا کو اپنا جواب جمع کرا دیا ہے۔

کونسل نے گزشتہ ہفتے اس ایشو پر بحث و مباحثہ کیا تھا اور اپنے جواب میں اس نے اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر تجاویز پیش کی ہیں۔ کونسل نے کہا ہے کہ اسلامی شریعت میں سزا کا مقصد مثال قائم کرنا اور جرائم کیخلاف مزاحمت پیدا کرنا ہے۔

کونسل نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ حدِ زنا (ناجائز تعلقات کی سزا) کے معاملے میں قرآن مجید میں واضح کیا گیا ہے کہ لوگوں کا ایک گروپ، طائفہ، سزا پر عملدرآمد کے موقع پر موجود ہونا چاہئے۔

کونسل نے مزید کہا کہ اسلامی قوانین میں طائفہ کی تشریح اس طرح کی گئی ہے کہ لوگوں کا ایک گروپ جس میں لوگوں کی تعداد تین سے چالیس تک ہو سکتی ہے۔ سی آئی آئی کا کہنا ہے کہ ڈکیت کی صورت میں اسلامی شریعہ کا کہنا ہے کہ پھانسی کی سزا سر عام دی جائے۔

اسلام میں دیگر سزائوں کے حوالے سے کونسل نے اپنے جواب میں لکھا ہے کہ مجرم کو معاشرے کیلئے عبرت کا مقام بنانا چاہئے۔ اسلامی اسکالرز اور قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے سی آئی آئی نے وضاحت کی کہ میڈیا کی موجودگی میں آج جرائم کیخلاف مزاحمت پیدا کرنے اور مجرم کو عبرت کا مقام بنانے کا مقصد؛ سزا پر عملدرآمد کی میڈیا کے ذریعے تشہیر سے حاصل ہو سکتا ہے۔

’’سر عام پھانسی‘‘ کے الفاظ شامل کرنے کیلئے ضابطہ فوجداری کے سیکشن 364-اے میں ترمیم کے حوالے سے سینیٹ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کونسل کا کہنا ہے کہ قانون میں ایسی کسی ترمیم کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ مقصد موجود قانون کے تحت ہی حاصل ہو سکتا ہے۔

سی آئی آئی نے پرزن رولز 1978ء کے رول نمبر 364؍ اور اسپیشل کورٹ فار اسپیڈی ٹرائل ایکٹ 1992ء کے سیکشن 10؍ کا حوالہ دیا اور کہا کہ اِن قوانین اور رولز کی موجودگی میں عدالت اور حکومت مجرم کو سر عام پھانسی کی سزا دے سکتی ہے۔ سی آئی آئی کے جواب میں مزید لکھا ہے کہ موجودہ عدالتی نظام میں اصلاحات کی جائیں تاکہ لوگوں کو تیز ترین انصاف مل سکے جس سے نہ صرف متاثرہ خاندان کو تسلی ہوگی بلکہ معاشرے میں یہ تاثر بھی قائم ہوگا کہ سزا یقینی طور پر ملے گی۔

سی آئی آئی کا کہنا ہے کہ سنگین جرائم کی صورت میں عدالتیں مجرموں کو بلاتاخیر سزا دیں۔ حال ہی میں سینیٹ سیکریٹریٹ نے کونسل کو ضابطہ فوجداری میں مجوزہ ترمیم کا مسودہ بھیجا تھا جس میں سر عام پھانسی کی اجازت کی بات کی گئی تھی۔ شریعت اسلامیہ میں سزا کے نفاذ کا مقصد زجر، عبرت اور انسداد جرائم ہے۔

حد زنا کے بارے میں تو قرآن مجید میں اس بات کی صراحت ہے کہ سزا نافذ کرتے ہوئے لوگوں کی ایک جماعت (طائفہ) موجود ہونی چاہئے۔ طائفہ کے اس لفظ کی تشریح فقہا اور مفسرین نے تین سے چالیس تک افراد کی ہے جبکہ ڈاکوئوں کے بارے میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ ان کو سولی پر لٹکایاجائے جو عموماً سرعام ہوتی ہے دیگر سزائوں کے بارے میں اتنا کہا گیا ہے کہ سزا کے ذریعے مجرم اور دیگر لوگوں کو عبرت حاصل ہونی چاہئے۔

مفسرین اور فقہائے اسلام نے تصریح کی ہے کہ یہ مقصد جس طرح مشاہدہ یعنی لوگوں کی موجودگی میں سزا کے نفاذ کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اسی طرح خبر کے ذریعے بھی حاصل ہو سکتا ہے آج کے دور میں اس کی صورت یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے سزا کے نفاذ کی تشہیر کی جائے۔

جہاںتک تعزیرات پاکستان کی دفعہ 464۔اے میں ’’سر عام پھانسی‘‘ کے الفاظ بڑھا کر ترمیم کا تعلق ہے تو اس کی ضرورت نہیں اس لئے کہ موجودہ قوانین جیسا کہ جیلوں کے قواعد 1978 کا قاعدہ 364 اور اسپیشل کورٹس برائے اسپیڈی ٹرئل ایکٹ 1992 کی دفعہ 10 کے مطابق سرعام سزا دینے کی گنجائش موجود ہے اس لئے اگر حکومت اور عدالت کسی مجرم کو سرعام سزا دینا چاہتی ہے تو دے سکتی ہے بشرطیکہ جرم اور مجرم کی نوعیت سرعام سزا کے نفاذ کے متقاضی ہو۔


مزید برآں ملک کا موجود عدالتی نظام اصلاح طلب ہے۔ سنگین جرائم کے لئے فوری اور سریع الانصاف عدالتوں کے قیام کی اشد ضرورت ہے تاکہ متاثرین کی جلدازجلد داد رسی کا اہتمام ہو سکے سزا کی یقینیت ایسا پہلو ہے کہ جس سے جرائم میں کمی آنے کا امکان ہے۔ حال ہی میں سینیٹ کمیٹی برائے امور داخلہ نے سینیٹر رحمان ملک کی زیر قیادت تجویز دی تھی کہ قانون میں ترمیم کرکے قصور واقعے جیسے جرائم پیشہ افراد کو سر عام پھانسی دی جائے۔

سی آئی آئی کا سر عام پھانسی کے حوالے سے موقف کچھ سیاست دانوں سے ہم آہنگ نہیں حتیٰ کہ چیف جسٹس پاکستان بھی حال ہی میں کہہ چکے ہیں۔ ابتدائی طور پر وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا تھا کہ وہ قصور میں بچیوں کے قتل اور زنا میں ملوث افراد کو سر عام پھانسی دینا چاہتے ہیں لیکن قانون انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ وہ سر عام پھانسی کیلئے قانون میں ترمیم کی راہ ہموار کرائیں گے۔ میڈیا نے حال ہی میں زینب قتل کے از خود نوٹس کیس میں چیف جسٹس پاکستان کے حوالے سے بتایا تھا کہ چیف جسٹس نے مقتولہ بچی کے والد سے کہا تھا کہ وہ بھی مجرم کی سر عام پھانسی چاہتے ہیں لیکن ملک کا قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔

 

تازہ ترین