• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایم کیوایم پاکستان، ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں ہوئی؟

Why Did Mqm Break In Pakistan

 سال 2013تک ایم کیوایم ایک مضبوط اور منظم ترین جماعت تھی لیکن اب بکھر رہی ہے اورعملی طور پر4دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے، یہ شہرمیں ’سیاسی انتشار‘ کی علامت ہےکیونکہ اِن دھڑوں کی خالق جماعت نے بھی ایم کیوایم (پاکستان) کےاندرکی خراب صورتحال سےفائدہ اٹھانےکی بھرپور تیاری کرلی ہے۔

گزشتہ ہفتہ ایم کیوایم (پاکستان) کاتھا لیکن غلط وجوہات کیلئےافراتفری اورتقسیم کی وجہ سے اپنی ہی جماعت میں مزید پریشانی پیدا کردی گئی اور دیگر سیاسی جماعتیں آخری دھچکے کا ’انتظار‘ کررہی ہیں۔

یہ دلچسپ بات ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی، جن کاکراچی کی سیاست میں کردار ہے انھوں نے اپنی مہم اور رکنیت سازی کی مہم تیز کردی ہے۔ کراچی کےامیرجماعت اسلامی حافظ نعیم نےبروزسومواراعلان کیاکہ پارٹی کراچی کیلئے ایک ’متبادل منصوبہ‘ پیش کرےگی۔ لہذا اب ہر جماعت کی نظرقومی اسمبلی کی20یا21 اورصوبائی اسمبلی کی 51 سیٹوں پرہے۔

پی پی پی سندھ سے سینٹ کی 8سے10 نشستوں کے اضافےکیلئے پُرامید ہے۔ انھیں اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا پورا حق حاصل ہے۔ ایم کیوایم(پاکستان) کے دونوں دھڑے اپنی منظوری کیلئے اب الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب دیکھ رہےہیں۔ رابطہ کمیٹی کی پوزیشن بہترہے لیکن کیا ان کے پاس اتنے ایم پی ایزہیں کہ وہ سینٹ کی کم از کم ایک یادو سیٹیں نکال سکیں۔

ایک بات یقینی ہے کہ قانونی جنگ جوبھی جیتے، ہارصرف ایم کیوایم کی ہی گی ، اور فائدہ تیسری پارٹی کا ہوگا۔ اگرایم کیوایم کےتنظیمی ڈھانچے پر نظر ڈالی جائے تو اپنے قائد یا بانی کےبعد رابطہ کمیٹی سب سے طاقتور آرگن ہے۔

سن 1984سے 1992تک ایم کیوایم کےپاس سیاسی سیٹ اپ تھا اوررابطہ کمیٹی کی بجائےاس کے پاس سینٹرل ورکنگ کمیٹی، چیئرمین، وائس چیئرمین، سیکریٹری جنرل اور دیگرعہدیدارتھے۔ آرمی آپریشن کے بعد اس کی سینٹرل باڈی ختم کردی گئی اور اس کی جگہ رابطہ کمیٹی بنادی گئی۔

بائیس اگست 2016 کے بعد حادثاتی طور پرایم کیوایم (پاکستان) نےایک الگ سیاسی شناخت کے ساتھ جنم لیا۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں پارٹی نقصان کی بھرپائی کی کوشش کی لیکن جو دبائو اس کےکنوینئر ڈاکٹرفاروق ستارپرڈالا گیا وہ اسے برداشت نہ کرسکے۔ جب انھوں نے اور دیگر نے ایم کیوایم (پاکستان) کے طور پر کام کرنےکافیصلہ کیاتو وہ اسٹیبلشمنٹ سےنرمی کی امید کررہےتھے۔

انھوں نےایم کیوایم کےبانی کے خلاف ایک قرارداد منظورکی اور بغاوت کرنے پر اُن کے خلاف ٹرائل کامطالبہ کیا لیکن وہ ایم کیوایم لندن سے مبینہ تعلقات کے ’شکوک‘ زائل نہ کرسکے۔ پھر انھیں ایم کیوایم کانام ترک کرنے کیلئے دبائو کا سامنا کرناپڑا، اور اگر وہ نئی جماعت یا گروپ بنالیتے تو انھیں ریلیف مل جاتا۔

ایک جانب انھیں اسٹیبلشمنٹ کے چند حلقوں کی جانب سے دبائوکاسامناتھا اور دوسری جانب حکومت سندھ نےلوکل گورنمنٹ ایکٹ2013 کے تحت عملی طور پر تمام اختیارات لےلیے اور میئرکراچی اور نظام کو بے اختیار بنادیا لہذا ایم کیوایم (پاکستان) اپنےکارکنوں اور رہنمائوں کے نام مقدمات اور انکوائریوں سے نکلواسکی اور نہ ہی اپنے بے روزگار کارکنوں کو نوکریاں دلواسکی۔ ان کے چند دفاتر کھول دیئےگئے لیکن انھیں سیکٹر اور یونٹس کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

نائن زیرو سے خورشید میموریل ہال اور جناح گراؤنڈ تک سب ایم کیوایم کیلئے ’نوگوایریا‘ رہے۔ ایم کیوایم (پاکستان) کو اپنی خدمتِ خلق فائونڈیشن بھی آزادانہ طور پرچلانے کی اجازت دی گئی نہ ہی ’چندہ‘ جمع کرنے دیاگیا۔ سیاسی محاذ پر مرکز میں موجود پی ایم ایل اور سندھ میں پی پی پی نے ایم کیوایم سے دوری بنائے رہی اور یقین دہانی کے باوجود انھیں حکومتی اتحاد کا حصہ بننے کی دعوت نہیں دی گئی۔

اس کے باعث ایم کیوایم (پاک) کے اندرسیاسی اور معاشی بحران پیدا ہوگیا اور اس کے ایم این ایز، ایم پی ایز اور دیگرعہدیداران پریشان ہوگئے۔ بعض اوقات اُن کے رہنماوں کو اُن غیرسیاسی لوگوں کی میٹنگز میں بےعزتی کاسامنا کرناپڑا، جو ایم کیوایم کی دیکھ بھال کررہے تھے۔

چند ماہ میں ایم کیوایم کے کئی ایم این ایز اور ایم پی ایز، سیکٹرز اور یونٹس نےایم کیوایم(پاک) سےپی ایس پی کی جانب اپنی وفاداریاں تبدیلی کرناشروع کردی یا بیرونِ ملک جانےکافیصلہ کیا۔

 

تازہ ترین