• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ لوگ جو دوسروں کے کام آتے ہیں اور جن کے اعمال کہکشاں کی طرح جھلملاتے رہتے ہیں، اُن کے اُٹھنے سے بہت بڑا خلا قحط الرجال کا شدید احساس دلاتا ہے۔ گیارہ فروری کو تین بڑی شخصیتوں کی زندگی کے چراغ گل ہونے کی خبر آئی، تو دل بیٹھنے لگا کہ پرانے بادہ کش اُٹھتے جاتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کی آواز جو یک لخت بند ہوئی، تو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا اَور ڈاکٹر حنیف شاہد کی رحلت پر کلیجہ کٹنے لگا کہ انہوں نے بے پناہ ریاضت اور جدوجہد سے علم و تحقیق کا ایک چمن آباد کیا تھا۔ اسی روز ڈراموں کے ایک شائستہ اور نامور اداکار قاضی واجد دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ موت اٹل ہے، اِسی لیے سمجھ دار قومیں اِس امر کا اہتمام کرتی ہیں کہ تعلیم و تربیت کے ذریعے ایسے مردانِ کار تیار ہوتے رہیں جن میں خلا پُر کرنے کی پوری صلاحیت پائی جاتی ہو۔ دکھ یہ ہے کہ ہمارے منصوبہ ساز اور قومی قیادتیں اِس انتہائی اہم ضرورت پر بہت کم توجہ دیتی ہیں۔ ہمارے بیشتر سیاست دان حالات کی سنگینی سے یکسر غافل ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ بڑھتے ہوئے قحط الرجال کے باعث ریاستی ادارے، اعلیٰ منتظمین اور دوراندیش منصب داروں سے خالی ہوتے جا رہے ہیں جبکہ ریاستی ادارے مسائل حل کرنے کے بجائے گھمبیر مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ لودھراں کا ضمنی انتخاب اس اداس ماحول میں ایک نئی تعبیر کے ساتھ نمودار ہوا ہے جس میں ہمارے سیاسی مستقبل کے لیے مثبت اشارے مضمر ہیں، مگر اُن پر سنجیدگی سے غور کرنے کی فرصت اربابِ سیاست کو میسر ہی نہیں۔
عاصمہ جہانگیر کی زندگی عام روش سے ہٹ کر تھی۔ اسی طرح ان کا انتقال بھی اُن کی افتادِ طبع کے مطابق آناً فاناً ہوا اور نمازِ جنازہ بھی غیر روایتی انداز میں ادا ہوئی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وہ جناب نوازشریف کی طرف سے اُن کے وکیل اعظم نذیر تارڑ سے ٹیلی فون پر طویل گفتگو کر رہی تھیں جس میں انہیں وزیر مملکت جناب طلال چودھری کا مقدمہ لینے پر آمادہ کیا جا رہا تھا۔ چودھری صاحب کو فاضل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی طرف سے توہینِ عدالت کا نوٹس دیا گیا تھا اور اُنہیں ایک ہفتے میں وکیل کرنے کی مہلت ملی تھی۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر یہ ذمہ داری اُٹھانے کے لیے تقریباً تیار ہو گئی تھیں کہ اچانک اُن کے منہ سے چیخ نکلی اور وہ دل کے دورے سے جانبر نہ ہو سکیں۔ اُن کی نمازِ جنازہ میں بہت لوگ آئے اور اس میں روایت سے ہٹ کر خواتین بھی شامل ہوئیں جن کو نماز کے تمام آداب معلوم نہیں تھے۔ محترمہ عاصمہ کی وصیت کے مطابق اُنہیں اُن کے فارم ہاؤس میں دفنایا گیا۔ اُن کی وفات پر اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے لے کر ملکی اور غیر ملکی سربراہوں کے پیغامات آئے اور اُن کے گھر پر تعزیت کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔ وہ اس اعتبار سے بڑی خوش نصیب خاتون تھیں کہ اُن کے مخالفین کی طرف سے بھی اُنہیں زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ محنت کشوں کے نمائندوں نے کہا کہ ہم ایک پُرجوش اور طاقتور آواز سے محروم ہو گئے ہیں۔ وہ شرفِ آدمیت اور حقوقِ نسواں کی بہت بڑی علمبردار اور نہایت سرگرم لیڈر تھیں۔ بے خوفی، بے باکی اور قوتِ ارادی اُنہیں وراثت میں ملی تھی۔ اُن کی والدہ ’ادبی دنیا‘ کے دبنگ ایڈیٹر کی صاحبزادی تھیں جو حکمرانوں کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی شہرت رکھتے تھے۔ اُن کے والد ملک غلام جیلانی ایوب خاں کے عہد میں قومی اسمبلی کے رکن تھے اور آمریت کے خلاف جدوجہد کی علامت بنے ہوئے تھے۔ اُن کا گھر مرجع خلائق تھا۔ ایوب خاں، یحییٰ خاں اور مسٹر بھٹو کے زمانوں میں میرے اُن سے رابطے رہے۔ عاصمہ کی عمر یہی کوئی اٹھارہ بیس سال ہو گی۔ بعدازاں اُن کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔
عاصمہ جہانگیر نے اپنی زندگی خود بسر کی اور زیادہ تر فیصلے بھی خود کیے۔ سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جناب ذوالفقار علی بھٹو نے دسمبر 1971ء کے آخری دنوں میں جیلانی صاحب کو اُن کی طرف سے کی گئی شدید تنقید کی پاداش پر ڈی پی آر کے تحت گرفتار کر لیا۔ عاصمہ غالباً اُس وقت قانون کی تعلیم سے فارغ ہوئی تھیں۔ اُنہوں نے گرفتاری کے خلاف ہائی کورٹ میں رِٹ پٹیشن دائر کی جسے مارشل لا کے تحت اس کی سماعت کا اختیار نہیں تھا، اِس لیے مسترد کر دی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی جس کی سماعت پانچ رکنی بنچ نے کی۔ اس کے سربراہ چیف جسٹس، جسٹس حمود الرحمٰن اور ارکان جسٹس یعقوب علی، جسٹس وحید الدین، جسٹس سجاد احمد جان اور جسٹس صلاح الدین تھے۔ اس بنچ نے تاریخ ساز فیصلہ دیتے ہوئے جنرل یحییٰ کو غاصب اور اس کے مارشل لا کو غیر آئینی قرار دے کر نظریۂ ضرورت کو دفن کر دیا تھا۔ چنانچہ پی ایل ڈی میں یہ فیصلہ عاصمہ جیلانی کے نام سے محفوظ ہے۔ وہ ایک بے دھڑک اور نڈر خاتون تھیں جو قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بقا کی جدوجہد میں پیش پیش رہیں۔ اُن میں حکمرانوں کو للکارنے اور پولیس کی لاٹھیاں کھانے کا زبردست حوصلہ اور بے سہارا اور ناداروں کی قسمت سنوارنے کا زبردست داعیہ موجود تھا۔ وہ مذہب کے بارے میں کچھ زیادہ ہی آزاد خیال تھیں جس پر مذہبی اور روایت پسند طبقے اُن کے نکتہ چیں رہے۔ برہان الدین وانی کی شہادت کے بعد وہ اقوامِ متحدہ کے ممبر کی حیثیت سے سری نگر گئیں اور بھارت کی درندگی پر ایک مفصل رپورٹ مرتب کی جس نے دنیا کی آنکھیں کھولنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کے عظیم المرتب شاعر جناب شورش کاشمیری نے اُن پر ایک لاجواب نظم لکھی تھی جس کے چند اشعار یہاں نقل کیے جاتے ہیں ؎
ایسی چنگاری ابھی تک اپنی خاکستر میں ہے
تیز رو، شمشیرِ براں، بے نظیر و باکمال
ایک تتلی جس میں شیروں کے تہوّر کی جھلک
ایک کونپل جس کی آب و تاب میں سحر و جلال
اپنی امی کی جگر داری کا نقشِ دل پذیر
اپنے ابا کے سیاسی ولولوں سے مالامال
ہم اس عظیم خاتون کو سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اُن کی مغفرت کے لیے دعا گو ہیں۔
ہمارے ڈاکٹر حنیف شاہد بھی علم و تحقیق کے میدان میں ایک جداگانہ مقام رکھتے تھے۔ مجھے اُن کا وہ عہد یاد ہے جب وہ پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں اسٹینو گرافر کے طور پر کام کرتے تھے۔ اُردو ڈائجسٹ کی اشاعت شروع ہوئی، تو وہ جزوقتی طور پر میرے ساتھ منسلک ہو گئے۔ وہ صبح میری طرف آتے اور میں روزانہ اُنہیں خطوط کے جوابات ڈکٹیٹ کراتا جو میرے نام آتے تھے۔ یہ سلسلہ تین چار سال جاری رہا۔ انہیں مطالعے کا شوق بہت تھا۔ اُن کی خداداد صلاحیتوں کی بدولت انہیں ریاض یونیورسٹی کی لائبریری میں نہایت اچھی ملازمت مل گئی۔ اس دوران انہوں نے علامہ اقبال اور قائداعظم پر ایسی نادر کتابیں تصنیف کیں جو ہماری تاریخ کا گنج ہائے گراں مایہ ہے۔ ان میں دونوں عظیم قائدین کی زندگی کے نہایت فکرانگیز اور غیر معمولی اہمیت کے پہلو سامنے آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مرقد پر شبنم افشانی کرے!

تازہ ترین