• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دارالحکومت پر بادلوںکے جھرمٹ نے جوبوندا باندی شروع کی تھی اس نے تیز بارش کی صورت اختیار کرلی تھی۔ بلیو ایریا کی ایک عمارت میں اپنے دوستوں کے ہمراہ بیٹھے مارگلہ کی خوبصورت پہاڑیوں کا نظارہ کررہا تھا۔بارش ہونے کی وجہ سے اسلام آباد کا ایک ایک درخت ایک ایک پتا،ایک ایک شاہراہ اور مارگلہ کی پہاڑیاں اجلی اجلی لگ رہیں تھیں۔بڑی بڑی عمارتیں دھلی دھلی لگ رہی تھیں۔ موسم سرد لیکن ماحول بڑا خوشگوار تھا۔سارے دوست ہی بارش کی صورت میں قدرت کی اس نعمت اور مہربانی پر شکرادا کررہے تھے کہ دوستوں نے کھانے کی بات شروع کردی ۔کوئی کہہ رہا تھا کہ اس موسم میں گرما گرم پکوڑے ہونے چاہیں تو کوئی سموسوں کی بات کررہا تھا۔کوئی اس موسم میں حلوے کی چاشنی کی بات کررہا تھا ۔حلوے کا ذکر کیا شروع ہوا تو اس کی کئی اقسام اور ان کو بنانے کے طریقوں پر بحث شروع ہوگئی۔حلوے پر سیر حاصل بحث ختم ہوئی تو بات مٹن کڑاہی سے ہوتی ہوئی پائے تک پہنچ گئی۔اور فائنل یہ طے پایا کہ اس سرد موسم میں پائے سے بہتر کوئی ڈش نہیں ہوسکتی اور اگر پائے اچھے بنے ہوں تواس کے سامنے اچھی سے اچھی فش کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ پائے کا ذکر ہوا تو ایک سیاسی رہنماکا ذکر بھی آگیا پھر کیا تھا سرد اور خوبصورت موسم سے شروع ہونے والی بحث اب کھابوںسے ہوتی ہوئی سیاسی بحث تک جا پہنچی تھی۔ہنسی خوشی اور مذاق میں ہلکی پھلکی بحث نے جلد ہی کڑواہٹ بھری اور تلخ صورت اختیار کرلی بحث میں تین سیاسی پارٹیوں کے خاص طور پرسیاسی پارٹیوں کے سپورٹر تھے۔اور میں نے محسوس کیا کہ سب نے اپنی سیاسی پارٹی یعنی جس پارٹی کو وہ پسند کرتا تھا اس کے حق میں بات کرنے کی بجائے دوسری پارٹی کی خامیاں اور لیڈر شپ پر سخت تنقید کے تیر برسانے شروع کردیئے۔اور دیکھتے ہی دیکھتے بات گالم گلوچ تک پہنچ گئی سب پڑھے لکھے ہونے کے باوجود منہ سے جھاگ نکال نکال کر تنقید کررہے تھے۔تھوڑی دیر پہلے جہاں پکوڑوں اور سموسوں کے کرارے پن،حلوے اور جلیبی کی مٹھاس ،فش کی افادیت اورپائے کی لذت کی بات ہورہی تھی وہاں اب صرف تلخی ہی تلخی تھی۔کھانے اور کھابے کے سارے پروگرام کینسل ہوچکے تھے اوراس تلخی میں سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے اس اچھی اور خوشگوار ماحول والی محفل کے یوں اختتام پر میں بھی بہت رنجیدہ تھا اور سوچنے لگا تھا کہ اس بحث میں الجھنے کی تلخی نے شاید ساری پوری قوم کو لپیٹ میں لے لیا ہے ۔چونکہ میں سوشل میڈیا کو بڑی باریک بینی سے دیکھتا ہوںاور محسوس کرتا ہوں کہ ہم سیاسی ،مذہبی اور ایسی شخصی بحث میں اپنی توانائیوں اور وقت کو ضائع کررہے ہیں اوراس بے لذت کام اور بے فائدہ لڑائی میں ان پڑھ اور جاہل نہیں بلکہ پڑھے لکھے لوگ بھی الجھے ہوئے ہیں۔اور جب آپ اس بحث اورگالم گلوچ میں الجھے ہوئے لوگوںکو جانچتے ہیں تو آپ کو یہ معلوم ہوتے ہی بالکل دقت پیش نہیں آتی کہ ان میں اکثر لوگ اپنی اپنی سیاسی پارٹی کے مخالفین کو گالیاں دینے کی باقاعدہ نوکری کررہے ہیںاور سیاسی پارٹیوں اور سیاسی شخصیات نے سوشل میڈیا پر گالیاں دینے کے لئے سیل بنائے ہوئے یعنی یہ لو گ اور یہ سیل اپنی پارٹی یا اپنے لیڈر کی اچھی اور مثبت باتیں شیئر نہیں کرتے بلکہ مخالفین کی کمزوریاں ،لغزشیں اورمنفی چیزوں کو موضوع بناتے ہیں اور پھر ان لوگوں،ان نوجوانوں اور سوشل میڈیا کے ان کھلاڑیوں جنہیں چاہیے کہ وہ اپنے وقت کواس بحث اور گالیوں کے لیے ضائع کرنے کی بجائے اس سوشل میڈیا اور نیٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بزنس کریں۔کچھ سیکھیں ۔معلومات حاصل کریں وہ بھی جواب در جواب میں لگ جاتے ہیںاور پھر یہ بحث خالی سیاست تک محدود ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر ہمارے لوگ مذہبی بحث کو بھی خوب ہوادے کر قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کررہے ہیں۔مجھے تواس ساری صورتحال سے بچپن کا وہ وقت یاد آجاتا ہے جب ہوٹلوںاورہاربر شاپس پر لکھا ہوتا تھا ۔سیاسی ومذہبی بحث منع ہے کیایہ فقرہ سوشل میڈیا پر بھی لاگو ہوسکتاہے۔اس غیر ضر و ری بحث میں الجھنے کی بجا ئے،ایک دوسرے کی لیڈر شپ کو برے نا مو ں اور بر ے القا بات سے یا د کر نے کی بجا ئے بر دا شت کا ما دہ رکھنا بہت ضر و ری ہے ۔ ور نہ ہر جگہ یہ لکھنا پڑ ے گا کہ سیا سی گفتگو منع ہے۔

تازہ ترین