• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکتیس پاکستانیوں کی 60ارب مالیت کی 55 جائدادیں

31 Pakistanis Own Properties In Dubai

رپورٹ : زاہد گشکوری۔۔۔متحدہ عرب امارات کی حکومت نے31پاکستانیوں کی 60ارب مالیت کی 55جائدادوں کی تصدیق کردی ہے۔اس حوالے سے امارات ٹیکس حکام نے 53پاکستانی سرمایہ کاروں کی تفصیلات فراہم کی ہیں جن میں سے صرف 5نےاپنے اثاثے ایف بی آر کو ظاہر کیےہیں۔

متحدہ عرب امارات کی حکومت نے 31امیر پاکستانیوں کی جائدادوں کی تصدیق کردی ہے ، جن کے 55سے زائد اثاثہ جات جن کی مالیت تقریباً 60ارب روپے بنتی ہے، دبئی کے قلب میں موجود ہیں۔یہ تفصیلات اس وقت سامنے آئی ہیں جب پاکستان نے ان پاکستانیوں کی تفصیلات متحدہ عرب امارات کے حکام کو فراہم کی تھیں ، جنہوں نے مبینہ طور پر دبئی کی رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کی تھی۔

ایف آئی اے کے معاشی جرائم ونگ نے متحدہ عرب امارات کی وزارت خزانہ سے 16نومبر،2017کو درخواست کی تھی کہ وہ امیر پاکستانیوں کی تفصیلات فراہم کریں۔ایف بی آر حکام کی جانب سے تیار کردہ دستاویزات کے مطابق، متحدہ عرب امارات کے ٹیکس حکام نے 53پاکستانی شہریوں کی تفصیلات فراہم کی ہیں ، جس میں متعدد رئیل اسٹیٹ سے وابستہ سرمایہ کارشامل ہیں ۔

ان تفصیلات میں 31کیسز میں پاسپورٹس کی نقول بھی فراہم کی گئی ہیں ، جو کہ 22جنوری،2018 اور 28جنوری ،2018کو لکھے گئے خطوط میں موجود ہیں۔ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ ان 31پاکستانی شہریوں کی تقریبا60ارب روپے مالیت کے 55اثاثے دبئی کے قلب میں موجود ہیں۔

اس سے قبل پہلی مرتبہ جیونیوز/دی نیوز نے تقریباً7ہزار پاکستانیوں کے اثاثہ جات سے متعلق خبر بریک کی تھی جس کی مالیت تقریباً11سو ارب روپے تھی جو کہ گزشتہ 15برسوں میں دبئی کے قلب میں بنائے گئے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان افراد نے یہ اثاثے اپنے سالانہ ریٹرنز میں بھی ظاہر نہیں کیے۔

جیو نیوز کو ملنے والے دستاویزات کے مطابق، 100پاکستانیوں کی فہرست جنہوں نے مبینہ طو ر پر دبئی میں جائدادیں خریدی تھیں ، ایف بی آر دفتر میں ڈائریکٹر، معاشی جرائم ونگ ، ایف آئی اے ہیڈکوارٹر سے موصول ہوچکی ہیں ، جسے وزارت خزانہ کے ای او آئی یونٹ بھجوادیا گیا ہے۔

متحدہ عرب امارا ت کے ٹیکس حکام نے 22جنوری اور 28جنوری کو لکھے گئے دو خطوط کے ذریعے 55جائدادوں کی منتقلی کی تفصیلات فراہم کردی ہیں ، ان میں سے 32پاکستانی شہریوں کے پاسپورٹس کی نقول بھی فراہم کی گئی ہیں۔ان 32میں سے 31کے شناختی کارڈز موجود ہیں ، جب کہ 31میں سے 29ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔

ایف بی آر ریکارڈ کے مطابق، صرف 5افراد نے متحدہ عرب امارات کے اثاثے ظاہر کیے ہیں۔ایف بی آر نے پاکستان کے وزارت خارجہ امور سے درخواست کی ہے کہ متبادل طریقہ کار کے طور پر ، اس مسئلے سے متعلق متحدہ عرب امارات کے سفیر سے ان کی ملاقات کا بندوبست کیا جائے ۔

دستاویزات کے مطابق، دفتر خارجہ نے یہ معاملہ متحدہ عرب امارات کی ایمبسی میں اٹھایا ہے اور متعدد خطوط لکھے ہیں ، تاہم اس پر مزید پیش رفت نہیں ہوئی ہے

۔ایف بی آر نے عدالت عظمیٰ کو بھی جمعرات کو آگاہ کیا ہے کہ ایف بی آر اعداد وشمار کے مطابق، ان 29افراد میں سے بیشتر انکم ٹیکس ریٹرنز باقاعدگی سے فائل کرتے ہیں ۔تقریباً27نے گزشتہ پانچ برسو ں کے مکمل ٹیکس ریٹرنز فائل کیے ہیں ۔دستاویزات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان 29افراد نے گزشتہ 10برسوں میں سےکم سے کم 7برس تک ٹیکس ریٹرنز فائل کیے ہیں۔

یہ معلومات متعلقہ اداروں کو بھجوائی گئی ہیں ، تاکہ گزشتہ پانچ برسوں میں سے کسی بھی سال کے رہ جانے والے ریٹرنز فائل کرنے کو یقینی بنایا جاسکے اور یہ بھی چیک کیا جاسکے کہ خریدی گئی جائدادوں کو ٹیکس ادا کنندہ نے اپنے سالانہ ریٹرنز میں ظاہر کیا ہے یا نہیں ۔جب کہ 2غیر رجسٹرڈ شدہ افراد کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے۔

پاکستان اور متحدہ عرب امارات نے ڈبل ٹیکس سے بچنے کے کنونشن پر 1993میں دستخط کیے تھے۔اس کنونشن کا آرٹیکل 27معلومات کے تبادلے سے متعلق ہے۔

متحدہ عرب امارات کے حکام نے 2012میں اس کنونشن کے بہت سے آرٹیکلز میں ترمیم کی درخواست کی تھی ، جس میں آرٹیکل 27میں ترمیم کی تجویز بھی شامل تھی تاکہ اسے او ای سی ڈی ماڈل 2010کے مطابق کردیا جائے۔
اس ضمن میں وفاقی کابینہ کی منظوری بھی طلب کی گئی تھی تاکہ کنونشن میں ترمیم سے متعلق دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا آغاز کیا جاسکے اور ضروری منظوری کے بعد یہ معاملہ متحدہ عرب امارات کے حکام تک سفارتی ذرائع سے پہنچایا جاسکے۔

یہ درخواست بھی کی گئی تھی کہ مذاکرات کے لیے باقاعدہ تاریخ اور جگہ کا بھی تعین کیا جائے ، جس سے پاکستان کو بھی جلد سے جلد آگاہ کیا جائے لیکن متحدہ عرب امارات حکام نے تاحال اس کا جواب نہیں دیا ہے۔یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان معلومات کا تبادلہ مذکورہ معاہدے کے آرٹیکل 27کے تحت کیا جاتا ہے۔

اس آرٹیکل کے تحت کسی بھی فریق ریاست کو موصول ہونے والی معلومات خفیہ رکھی جائیں گی ، جس کی نوعیت وہی ہوگی جو کہ ریاست کے اندرونی قوانین کے تحت حاصل کردہ معلومات کی ہوتی ہے۔

تاہم، اگر معلومات فراہم کرنے والی ریاست نے ہی اسے خفیہ کہا ہے تو یہ معلومات صرف ان اداروں کے اہلکاروں کو فراہم کی جائے گی ،جو کہ اس سے متعلق ہوں گے ، ان میں عدالتیں اور انتظامی ادارے شامل ہیں۔

ایسے افراد یا حکام اس معلومات کو صرف مذکورہ مقاصد کے لیے ہی استعمال کرسکیں گے تاہم یہ معلومات عوامی عدالتی کارروائیوں اور عدالتی فیصلوں میں بھی سامنے لائی جاسکتی ہیں۔اسی طرح، یہ معلومات کسی دوسری ایجنسی یا محکمے یا دیگر کسی مقصد کےلیے جس کا آرٹیکل میں ذکر نہیں ، یہ معلومات فراہم نہیں کی جائیں گی۔

مزید یہ کہ ٹی وی پروگرام،’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘جو کہ 5دسمبر،2018کو نشر ہوا تھا ۔اس پروگرام میں اینکر نے بھی کہا تھا کہ اس کے پاس لگ بھگ 7ہزار پاکستانیوں کی تفصیلات ہیں جنہوںنے متحدہ عرب امارات کے رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کررکھی ہے۔

شاہزیب خانزادہ اور نمائندے زاہد گشکوری نے ایف بی آر سے تفصیلات حاسل کرنے کے لیے خطوط بھی تحریری کیے تھے ۔

ایف بی آر کے عدالت عظمیٰ میں جمع کرائے گئے جواب کے مطابق، جیسے ہی تفصیلات موصول ہوں گی ،متحدہ عرب امارات کے حکام سے ان معلومات کی تصدیق کی جائے گی تاکہ ان پاکستانی سرمایہ کاروں کے خلاف اقدامات کا آغاز کیا جاسکے۔

تازہ ترین