• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ملک کی 70سالہ تاریخ میں کئی حکومتیں تبدیل ہوئیں لیکن آج تک قومی سطح پر کوئی ٹھوس اور مربوط صحت پالیسی تشکیل نہ دی جا سکی اگر اس دوران کوئی اقدامات اٹھائے بھی گئے تو وہ صرف سطحی ثابت ہوئے اس وقت مجموعی طور پرملک بھر میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات ہر ایک ہزار میں سے 66 ہے۔ بھارت میں یہ شرح38جبکہ سری لنکا میں آٹھ کی ہے۔ پاکستان میں خواتین کی اوسط عمر 67، بنگلہ دیش میں 73، تھائی لینڈ میں78 سال ہے۔ دوران زچگی پاکستان میں خواتین کی اموات کی شرح ہر ایک لاکھ میں 170 جبکہ سری لنکا میں 30ہے۔ 2011میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت صحت کا شعبہ صوبوں میں تقسیم ہوگیا تاکہ اس پر مناسب توجہ دی جا سکے لیکن اس سے ان چھ برسوں میں خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آسکے صرف پنجاب حکومت اس حوالے سے سرگرم ہے لیکن پنجاب سمیت ہر صوبے میں ایک ٹیچنگ اسپتال سے لیکر بنیادی مرکز صحت تک مریضوں کی اکثریت دھکے کھا کر چلی جاتی ہے یا پرائیویٹ اسپتالوں میں مہنگا علاج معالجہ کرانے پر مجبور ہوتی ہے۔ پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں اس سال بھی 19فروری سے ہفتہ صحت منانے کا پروگرام بنایا ہے جس کے تحت منتخب دیہی مراکز صحت، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتالوں اوربنیادی مراکز صحت میں تشخیصی ٹیسٹ، مشاورت اور ادویات کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی اس دوران ہیپاٹائٹس بی سے بچائو کے مفت ٹیکے لگائے جائیں گے اور مفت اسکریننگ کی جائےگی اگرچہ یہ ایک اچھا رجحان ہے تاہم اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہئے کہ اگر پورا ہفتہ محکمہ صحت کی پوری مشینری متحرک ہو سکتی ہے تو پورا سال ایسا کیوں نہیں ہوتا اور اگر ایک صوبہ یہ اقدامات کر سکتا ہے تو دیگر صوبوں کی حکومتیں بھی اپنے عوام کے علاج معالجہ کیلئے ایسا کیوں نہیں کرسکتیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبائی حکومتیں ترجیحی بنیادوں پر عوام کو ہر سطح پر علاج معالجہ کی مکمل سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔

تازہ ترین