• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اور پھر متحدہ پاکستان کا وہ پرُ آشوب دور شروع ہواجو 1966 سے1971 پر محیط ہے ۔ایوب ،شاستری کے معاہدہ تاشقند سے پاکستان کے مشرقی بازو کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے وجودمیںآنے تک، اک آگ کادریاتھااورڈوب کے جاناتھا۔ سیاست کے نئے نئے رنگ ،اصول کم اور بے اصولیاں زیادہ ،معاہدہ تاشقند کے خلاف جلسے ،جلوس ،جنرل ایوب کا فیلڈ مارشل بن جانا ،مشرقی پاکستان اوربعد میں مغربی پاکستان میں ون یونٹ کے خلاف مسلسل احتجاج ،پیپلز پارٹی کا قیام ،ایوب خان سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ جس کی شدت مشرقی پاکستان میں زیادہ تھی ،بدامنی آگ اور فساد۔ایوب خان نے اقتدار چھوڑنے کی بجائے فوج کے کمانڈرانچیف جنرل یحییٰ خان کو منتقل کر دیا ۔اب یحییٰ خان نیا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھا۔اس فیصلے نے جلتی پر تیل کا کام دیا ۔ملک کے مشرقی بازو میں صورتحال زیادہ خراب تھی۔اگر تلہ سازش کیس میں گرفتار شیخ مجیب الرحمن کی رہائی کا مطالبہ بہت زیادہ شدت اختیار کر گیا تھااور صورتِ حال سول وار کی طرف بڑھ رہی تھی۔ مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں میں ون یونٹ کے خلاف نفرت تھی جس کا اظہار جلسے جلوسوں کی صورت میں مسلسل جاری تھا اور کراچی ان سلگتی چنگاریوں کا مرکز، پھردسمبر 1970میں براہِ راست بالغ حقِ رائے دہی کی بنیاد پر پاکستان کے پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے جو متحدہ پاکستان کے آخری انتخابات ثابت ہوئے۔لیکن نہ تو پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آیااور نہ ہی منتخب نمائندوں کو اقتدار منتقل ہو سکا۔ مشرقی پاکستان میں مسلسل خانہ جنگی اور بھارت کی مداخلت کے سبب 1971کی پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹ گیا۔ متحدہ پاکستان کا مشرقی بازو بنگلہ دیش بن چکا تھا اور وہاں موجود پاکستان کے 90ہزار فوجی بھارت کی قید میں تھے۔
باقی ماندہ پاکستان کے عوام سکتے میں تھے لیکن پھر ردِ عمل کا آغاز ہوا تو اس کا پہلا نشانہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان جنرل یحیی خان بنا۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ میں یحیی خان کو غاصب قرار دینے کی رٹ پٹیشن دائر ہو چکی تھی۔ درخواست بیس اکیس برس کی ایک دھان پان سی نوجوان لڑکی نے رجسٹرار کے سامنے پیش کی تھی اور وہ ایک عرصے تک اس کی پیروی بھی خود ہی کرتی رہی۔ اس لئے کہ اس کے والد جیل میں تھے۔ یہ ملک غلام جیلانی تھے۔ بالآخر ان کی ہونہار بیٹی نے اپنے والد سے دو ہاتھ آگے بڑھ کر وکالت کی ڈگری بھی حاصل کر لی تھی اور اپنی زندگی کا پہلا مقدمہ بھی جیت لیا تھا، اور وہ بھی سپریم کورٹ سے۔اس جیت کے نتیجے میں باقی ماندہ پاکستان میں جمہوریت بحال ہوئی، چیف مارشل لاایڈمنسٹریٹر کو غاصب قرار دیا گیا، بنیادی انسانی حقوق بھی بحال ہو گئے اور وہ سب لوگ جو کسی بھی مارشل لاریگولیشن کے تحت جیلوں میں بند تھے، انہیں رہائی حاصل ہوئی جن میں سے ایک فخر مند باپ، ملک غلام جیلانی بھی تھے۔ ان کی ذہین اور قابلِ فخر بیٹی عاصمہ جیلانی نے جمہوریت کی بحالی میں تن تنہا بہت بڑی اور شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔
اس پہلی کامیابی کے بعد عاصمہ جیلانی نے پھر مڑ کر نہیں دیکھا۔ اس نے اپنے گھر، اپنے خاندان اور اپنے والد سے جو کچھ سیکھا، انہی روایات کو آگے بڑھایا۔ میرے نزدیک یہ گھر اور خاندان ہی اس کی پہلی اور آخری یونیورسٹی تھا۔ اپنی مہد اور لحد کے بیچ وہ جہاں بھی گئی اسے اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ پی ایچ ڈی نہیں تھی لیکن ایک سے بڑھ کر ایک یونیورسٹی نے عاصمہ کوڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں دے کر اپنی اور اس کی عزت کو بڑھایا۔ عصبیت کی خاردار تاروں کے حصار میںہم قبیلوں میں بٹی ہوئی قوم ہیں ،یہاں وہی سچ ہے جو ہمارے سینے پر آویزاں ہے اور اس سے الگ ،سب جھوٹ، کفر اور غداری ۔
لیکن وہ تو قدرت کا عطیہ تھی، دکھی انسانیت کے لیے۔ اسے اپنے پاکستان اور اس سے آگے دنیا بھر کے مظلوم ،کمزور اور ناتواں طبقوں کے بے آوازوں کی گونجدار آواز بن کر آگے بڑھنا تھا۔یہ بہت کٹھن اور صبر آزما راستہ تھا جہاں قدم قدم پر عصبیت بچھی تھی ،جہاں قبیلے کے برانڈڈ سچ سے انحراف کرنے والوں کے لیے کافراور غدار کے ’’اعزازات‘‘تھے ، قید ،کوڑے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں تھیں۔لیکن وہ خوف اور ڈر سے ماورا تھی اور سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے اپنے لئے یہ راستہ منتخب کیا تھا اس نے جبر کی کسی طاقت کے سامنے کبھی جھکنا نہیں سیکھا تھا۔
یہ مہذب مگر جارحانہ مزاج رکھنے والی لڑکی عاصمہ جیلانی تھی جو شادی کے بعد عاصمہ جہانگیر کہلائی۔اور اس شعر کی سراپاتفسیر بھی۔۔۔
مفاہمت نہ سکھا جبرِ نا روا سے مجھے
میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
لیکن یہ ظلم کے خلاف ڈٹ جانا اور جبر کے خلاف زندگی بھر سربکف رہنا ایک منطقی سوال کو جنم دیتا ہے کہ ایسی بے مثال خوبیاں اس کے مزاج کا حصہ کیسے بنیں۔اور اس کا منطقی جواب بھی یہی بنتا ہے کہ یقیناََ یہ اس گھر میں پرورش کا نتیجہ ہے جہاں وہ پیدا ہوئی،جہاں اس کا بچپن گزرا۔یہ ملک غلام جیلانی کا گھر تھا ۔ایک پروگریسو لبرل سیاستدان ،بے خوف اور نڈر، شائستہ اور باضمیر شخص ۔وہ1962کی ایوب خان کی غیر جماعتی قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے لیکن جنوری1965 کے صدارتی انتخاب سے پہلے ملک غلام جیلانی نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔محترمہ فاطمہ جناح، ایوب خان کے مقابلے میں اپوزیشن کی صدارتی امیدوار تھیں اور ملک صاحب نے محترمہ کی انتخابی مہم کے لیے بلوچستان اور مشرقی پاکستان میں بھرپورکردار ادا کیا جہاں ان کا خاصا سیاسی اثرورسوخ تھا۔ جنرل ایوب خان نے دھاندلی کے الزامات کے ساتھ الیکشن جیت لیا ۔محترمہ فاطمہ جناح نے اس کے بعد عملی سیاست سے خود کو الگ کرلیا۔ ملک غلام جیلانی نے عوامی لیگ جوائن کر لی اور مغربی پاکستان عوامی لیگ کے صدر منتخب ہوئے، بعد میں کچھ عرصے کے لیے وہ آل پاکستان عوامی لیگ کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔
پاکستان میںکچھ لوگ عاصمہ جہانگیر پر الزام بھی لگاتے ، اسے کافر اور غدّار بھی قرار دیتے لیکن اس نے کبھی مُڑ کر ان کا جواب نہیں دیا، کبھی تردید نہیں کی۔ وہ اکثر کہا کرتی تھی کہ میرا عمل ہی میرا دفاع ہے اور یہی میری تردید ہے۔ اس نے اپنے بد ترین مخالفوں کے لئے بھی ہمیشہ انصاف مانگا ۔ ظالم کے خلاف مظلوم کے لئے وہ ہمیشہ مزاحمت کا استعارہ بن کر سامنے آئی۔ نفرت، مصیبت، خوف اور ڈر اس کے لئے نا مانوس الفاظ تھے۔
جمہوریت کی بالا دستی، قانون اور انصاف کی حکمرانی، اقلیتوں کے لئے مساوی حقوق، خواتین کے لئے بنیادی حقوق کا تحفظ اور انہیں مردوں کے برابر حیثیت دلانا، آزادی رائے کا دفاع اور سماج کے تمام کمزور طبقات کی حمایت میں ڈٹ جانا ،عاصمہ کی زندگی کے ایجنڈے کی بنیادی ترجیحات تھیں۔
میں سمجھتا ہوں وہ انسانیت کی مہربان آواز تھی اور مجھے فخر ہے کہ میں اس کے عہد میں جیا۔

تازہ ترین