• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کی ایک سرد شام مجھے بھولتی نہیں ہے۔ فلموں کی ڈریم گرل اور تھیٹر کی ڈانسنگ کوئین کہلانے والی اداکارہ پر وحشیانہ تشدد کیاگیاتھا۔ وہ صوفے پر رضائی اوڑھے درد سے کراہ رہی تھی۔اس کا سارا جسم زخموں سے چور تھا۔اس نے اپنا سراونی ٹوپی سے چھپا رکھا تھا ۔تشدد کرتے ہوئے اداکارہ کو دیواروں کے ساتھ پٹخا گیا تھا اور پھر اس کے سر کےبالوں کے ساتھ بھنویں بھی مونڈدی گئیں۔یہ اداکارہ نرگس تھی جسے پولیس انسپکٹر عابد باکسر نے بری طرح مارا پیٹا تھا۔1999کی بات ہے عابد باکسر نامی پولیس افسر لاہور میں دہشت کی علامت سمجھاجارہاتھا۔ اس کی وجہ شہرت جعلی پولیس مقابلے بھی تھی۔ اپنے اسی ’’اسٹارڈم ‘‘ کی بدولت وہ اداکارہ نرگس کے قریب ہوا اور دونوں میں گہری دوستی ہوگئی ۔باکسر سے دوستی کے باعث اداکارہ نرگس بھی اپنے ساتھی فنکاروں خصوصاََ اداکاراوں کے لئے’’ٹیرر‘‘سمجھی جانے لگی۔بعدازاں باکسر کے کان بھرے گئے کہ نرگس نے کسی مفرور ہیوی ویٹ کو اس کے قتل کی سپاری دی ہے۔ لہذا باکسر نے قبل از قاتلانہ حملہ حکمت عملی کے تحت اداکارہ کو بری طر ح مارا پیٹا اور عبرت کا نشان بناتے ہوئے اس کے بال منڈواد ئیے۔ یہ وہ دن تھے جب میں روزنامہ جنگ لاہور سے سینئر شوبز ایڈیٹر کے طور پر وابستہ تھا اور کلچرل رپورٹنگ بھی کیاکرتاتھا۔رپورٹنگ سیکشن کی میٹنگ میں ایڈیٹر رپورٹنگ انجم رشید نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے ہاں عابد باکسر اور اداکارہ نرگس کے تنازع پر مشتمل خبریں دبائی جارہی ہیں۔ایڈیٹر رپورٹنگ نے ڈیوٹی رجسٹر میںمیرے لئے اسائنمنٹ درج کرایا۔۔ طاہر سرورمیر آج نرگس کا تفصیلی انٹرویو فائل کریں گے جس میںاداکارہ سے پوچھا جائے کہ عابد باکسر نے اس پر وحشیانہ تشدد کیوں کیا؟میرا شعبہ اگرچہ صحافت ہے لیکن میں نے اپنی ڈیوٹی بھارتی فلم ’’دبنگ ‘‘ کے پولیس انسپکٹر چلبل پانڈے کی طرح سرانجام دی ہے جس کا شیوہ تھا کہ۔۔ ایک بار جو میں نے کمٹ منٹ کرلی تو پھراس کے بعد میں اپنے آپ کی بھی نہیں سنتا۔ اسی دبنگ فارمولے پر عمل کرتے ہوئے میں اداکارہ نرگس کے ہاں پہنچا اورمیں نے اسی شام اداکارہ کا انٹرویو فائل کردیا۔
اداکارہ نرگس ان دنوں فیصل ٹائون میں رہائش پذیر تھی۔باکسر نے نرگس پر تشدد اسی گھر میں کیاتھا۔سہ پہر کے وقت نرگس کے ہاں پہنچا تو وہ شدید زخمی تھی ۔مجھے یقین نہیں آرہاتھاکہ ڈانسنگ کوئین کہلانے والی گلیمریس گرل کا یہ حال ہوگیاتھا۔نرگس نے بتایاکہ باکسر چار سال سے میرے ساتھ زبردستی جنسی زیادتی کررہاہے ۔اس نے میرے اکلوتے بھائی کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔چھوٹے بھائی کی زندگی بچانے کی غرض سے میں نے اس کے ساتھ تعلقات استوار رکھے ۔یہ ساری باتیں اگلے روز جنگ میں شائع ہوئیں تو صبح سویرے عابد باکسر نے میرے موبائل پر فون کرتے ہوئے اپنی ناراضی کا اظہار کیا۔باکسر کو رنج تھاکہ میری خبر سے اس کی ’’باکس آفس پوزیشن‘‘ کو شدید نقصان پہنچا ہے لہذا اب میں اپنا بندوبست کرلوں۔باکسر کی دھمکی کے بعد میں نے اپنی فول پروف سیکورٹی کے انتظامات کیسے کئے یہ بعد میں بیان کروں گا ۔پہلے یہ اسٹوری سن لیں کہ نرگس راتوں رات اسٹار کیسے بن گئی تھی؟1992کی بات ہے اداکارہ ریما ا ن دنوں اپنے عروج پرتھیں۔یہ وہ زمانہ تھا جب لاہور فلم ٹریڈ میں سالانہ 80سے 90فلمیں بنائی جارہی تھیں۔انجمن ،نیلی ،نادرہ ،گوری اور ریماجیسی اداکارائیں سلطان راہی، جاوید شیخ ،اظہار قاضی اور اسماعیل شاہ کے مدمقابل کام کررہی تھیں۔ ان دنوں میں روزنامہ پاکستان سے ایڈیٹر شوبزسیل کے طور پر وابستہ تھا۔ کسی بات پر ریما سے بحث وتکرار ہوگئی ،میں نے اپنے ایڈیٹر سید عباس اطہر شاہ جی سے شکایت کی تو انہوں نے بات پر کان نہ دھرے۔میں نے اس معاملے کو آزادی صحافت کا مسئلہ بنا کرپیش کرتے ہوئے تاثر دیاکہ اداکارہ نے ہماری صحافیانہ ’’رٹ‘‘کو چیلنج کردیا ہے۔میں نے شاہ جی کو مزید بتایاکہ ریما بعض اخبارات سے وابستہ صحافیوں کو انوکھالاڈلاسمجھتے ہوئے ہمارے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہے ۔اس پر شاہ جی نے مجھے آئیڈیا دیاکہ میں ریما کے سامنے کسی نئی اداکارہ کو اپوزیشن کے طور پر کھڑا کردوں۔
شاہ جی نے مجھے وہی طریقہ کار اختیار کرنے کا مشورہ دیاجو یہاں ہیوی مینڈیٹ قیادت کے خلاف آزمایاجاتاہے۔جس طرح بے نظیر بھٹو کے سامنے نوازشریف اینڈ کمپنی اور پھر وقت آنے پر نوازشریف کے خلاف کپتان خان کو میدان میں اتاراگیا۔ میں نے بھی ریما کے خلاف ہو بہو وہی فارمولااستعمال کیا۔ نرگس جس کا اصل نام غزالہ ہے ان دنوں اپنی والدہ بلقیس المعروف بلوکے ساتھ ہرشام اسٹوڈیوگھوماکرتی تھی۔شکل وصورت اچھی تھی ،اسے ڈانس کا بھی بے حد شوق تھا۔جن دنوں میری نرگس سے ملاقات ہوئی یہ خورشید بائی نامی ماسڑسے ڈانس سیکھ رہی تھی۔نرگس کا آبائی گھر ملتان روڈ پرواقع اسٹوڈیوز کے سامنے محلہ سید پور میں تھا لیکن ان دنوں فلم انڈسٹری میں قسمت آزمائی کی خاطر انہوں نے نیلم بلاک ڈھائی مرلے کاایک گھر کرائے پر لے رکھاتھا۔مجھے یاد ہے ان دنوں نرگس بھارتی اداکارہ وجنتی مالا پر فلمبند گیت’’ ہونٹوں پہ ایسی بات میں دبا کے چلی آئی‘‘ تیار کررہی تھی۔کئی بار ایسا ہوا نرگس اس گانے پر ڈانس کررہی ہوتی تھی اور میں ڈھائی مرلے کے اس گھر کے تنگ ڈرائنگ روم میں بطور مہمان خصوصی موجود ہوتاتھا۔ ریما کے خلا ف اپنے منصوبے پر عمل درآمد کیلئے نرگس مجھے انتہائی موزوں دکھائی دی لہذا میںنے فلم انڈسٹری کی مقبول قیادت کے خلاف آئی جے آئی بنائی اور تحریک عدم اعتماد برپا کردی ۔ اس فارمولے کے تحت میں نے اداکارہ نرگس کی مدد کرتے ہوئے اسے پینتیس دنوں میں 35فلمیں سائن کراکر اداکارہ ریما کو لودھراں جیسا اپ سیٹ فراہم کیاتھا۔ ریما کے خلاف اور نرگس کے حق میں اسی پیٹرن پر کام دکھایاتھا جیسے ’’فرشتے ‘‘ دکھایاکرتے ہیں۔ فلم ٹریڈ کے 80فیصد فلمساز میر ے شہر گجرانوالہ سے تھے لہذا میں نے نرگس کے لئے اپنا بھر پور اثر ورسوخ استعمال کیا۔شاہ جی کی ہدایات کے مطابق ریما اور نرگس کے مابین اخباری بیان باز ی بھی شروع کردی گئی تھی ۔نرگس سے ریما کو ڈانس کرنے کا چیلنج کروانا بھی منصوبے میں شامل تھا،اس کے ردعمل میں ریما ہرجگہ نرگس کا ذکر چھیڑ کر بیٹھ جاتیں جس کے باعث ایک نووارد اداکارہ راتوں رات ملک بھر میں مشہور ہوگئی۔جس دن نرگس نے پہلی بار کیمرے کا سامنا کیاتھا میں نے سرخی جمائی ’’نرگس پر فلموںکی بارش،شہزادی آج فلمی اکھاڑے میں اترے گی‘‘۔جب تک ریما کو اپنے خلاف ہونے والے ’’آپریشن مڈنائٹ جیکال‘‘ کا احساس ہوااس کے سامنے نرگس کی شکل میں ایک اپوزیشن کھڑی کردی گئی تھی۔چند ماہ بعد میری ریما سے صلح کرادی گئی ۔یہ صلح ریما کے والد جناب اکمل قزلباش نے کرائی تھی جنہوں نے اپنے طرز کلام سے مجھے بہت متاثر کیاتھا۔قزلباش صاحب کے پاس مجھے میرا دوست خانو سمراٹ لے کرگیاتھا ۔ مرحوم خانو سمراٹ ریما کا استاد اور پاکستان فلم انڈسٹری کا نامور کوریوگرافر تھا۔ ریما اورمیرے درمیان یہ ’’میثاق ثقافت ‘‘مذکورہ دونوں شخصیات کے حکم پر ہواتھا۔دنیا کی کوئی بھی فلم انڈسٹری ہوانڈر ورلڈ اور ٹیرر ورلڈ سے وابستہ کرداروں کے اثر سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔ریما نے اپنی ذہانت سے ایسے عناصر کو اپنے آپ سے محفوظ رکھا۔دوسری اداکارائیںایسا کرنے میں ناکام رہیں،ان میں بعض کو سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑا اور چند قتل کردی گئیں۔ان دنوں عمران خان اپنے جلسوں میں الزام لگارہے ہیںکہ خادم اعلیٰ نے عابد باکسر کے ذریعے ماورائے عدالت قتل کرائے ہیں۔کراچی سے مفرور ہونے والے پولیس افسر رائوانوار کے سرپرستوں میں بلاول ہائوس کے مکینوں کانام لیاجارہاہے۔حقیقت کیاہے سامنے آنی چاہیے۔عابد باکسر سے میری صلح کا معاملہ بھی دلچسپ تھا۔یہ این آراو میرے ایک مہربان اور ان کی فنکارہ بیوی نے کرایاتھاجہاں ڈنر کرتے ہوئے باکسر کی طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ناسازی طبع سے چند ساعتیں قبل باکسر نے مجھ سے کہاتھاکہ ’’بند ہ مارنا ا ن کے لئے ایسے ہی ہے جیسے پانی کا گلاس اٹھا کراِدھر سے اُدھر رکھنا‘‘۔

تازہ ترین