• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری بنتی قومی تاریخ کا یہ چپٹربہت روشن ہے کہ جمہوری حکومتوں کے اختتام پذیر عشرے (2008-18) میں بالآخر یہ بڑی قومی ضرورت پوری ہونی شروع ہوگئی کہ متنازعہ حکمران طبقے کا ٹاپ ٹو باٹم احتساب بالآخر شروع ہوگیا۔ اس سے قبل ہماری اعلیٰ عدلیہ کی سطح پر بھی انتظامیہ کی غیر قانونی اورجمہوری مداخلت اور تفتیشی اداروں کی غیر آئینی خاموشی اور غیر قانونی کردار کے باعث ممکن ہی نہ تھا، جبکہ عوام میں عدلیہ اور ان اداروں کا اعتبار تیزی سے ختم ہوتا ہوا انتہائی زیریں سطح پر آگیا تھا۔
تحریک بحالی آئینی عدلیہ (2007-8) اور پاناما لیکس (اپریل 2016) تاریخ پاکستان میں حالات حاضرہ کے ایسے نتیجہ خیز واقعات ہیں، جن سے فوجی آمریتوں اور ان ہی کی کوکھ سے پیدا ہونے والی غیر جمہوری ’’عوامی لیکن نااہل سول قیادتوں اور جماعتوں‘‘ کے تشکیل دیئے ملک اور عوام دشمن اسٹیٹس کو کی ٹوٹ پھوٹ اور اس کی جگہ آئین و قانون کی بالادستی واضح طور پر قائم ہوتی معلوم دے رہی ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ الیکشن 2008 سے بحالی جمہوریت کے عمل میں اسٹیٹس کو کی روایتی سیاسی قوتوں نے اپنے منفی ارادوں، مزاج اور گورننس کے رنگ کے مطابق ’’بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے‘‘ کا جو بیانیہ عام کیا، اسے عوام الناس اور حکومتی امور میں مداخلت کی اہلیت رکھنے والی روایتی غیر سیاسی و جمہوری قوت نے بھی اطمینان بخش حد تک قبول کرلیا تو روایتی حکمران طبقے میں نفاذ مارشل لا کے دھڑکے کا دھڑن تختہ ہوگیا، ہر جمہوری دور میں بیڈ گورننس سے عوام کے ایک طبقے میں فوجی مداخلت کی آرزو بھی، اس بار بھی بدترین حکمرانی کے باوجود پیدا نہ ہوئی۔ تلخ تنقید کے عادی ناقدین نے عوام کو بھی اپنی تیز و تند تنقید کا ہدف بنائے رکھا، لیکن وہ بھی اسی بدترین جمہوریت کو پوری آئینی باری مکمل کرانے پر آمادہ نظر آئے۔ تاہم وکلاء کی تحریک بحالی آئینی عدلیہ کے مثبت نتائج کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جیوڈیشل ایکٹیوازم Iمیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدامات کا کڑا چیک ضرور قائم ہوا جس کا نتیجہ پارلیمان کے برقرار رہتے ہوئے عدلیہ کی حکم عدولی کرنے والے وزیراعظم کے وزارت عظمیٰ کھونے اور آئندہ 5سال کے لئے عوام کی نمائندگی کے لئے نااہل ہونے کی سزا پر منتج ہوا۔ پارلیمان قائم رہی، جیوڈیشل ایکٹیوازم اور ناقابل اصلاح معلوم دیتی بیڈگورننس کی غیر اعلانیہ آئینی باری بالآخر مکمل ہوگئی، یہ کسی برسراقتدار اکثریتی جماعت کی بمطابق آئین پہلی مکمل ہوئی باری تھی، گویا سیاست دانوں اور جماعتوں کی ایک بڑی شکایت پوری ہوئی۔
الیکشن13کے نتیجے میں حسب سابق دوسری روایتی سیاسی جماعت کے اقتدار کی باری شروع ہوئی۔ اصلاحات کے کسی پیکیج کے بغیر، تازگی سے بدستور پرہیز کرتی اور وعدہ شکنی کے آغاز سے ن لیگ کی یہ حکومت بھی اپنے ہی اقتدار و اختیار سے بلدیاتی انتخابات کی آئینی ضرورت کو دبائے، حتیٰ کہ خارجی و سلامتی کے امور کو نظرانداز کرتی وزارت خارجہ کو برباد کرتی یہ حکومت بھی آئینی مدت بغیر کسی دھڑکے کے مکمل کررہی تھی۔ میڈیا اور جھوٹی اپوزیشن کا دبائو تو ضرور رہا لیکن یہ حکومت کا کچھ بھی تو نہ بگاڑ پا رہے تھے کہ پاناما نازل ہوگیا۔
منظر بدل گیا، پاناما لیکس کا کوئی داخلی فیکٹر نہ تھا، تاہم چھوٹی اور اصلی اپوزیشن کےاس پر انہماک نے اسٹیٹس کو پر چلتی حکومتی کی تشویش کو تو بڑھایا لیکن وہ بنتی صورتحال کے مطابق اقدامات نہ کرسکی، اس نے اس کا رخ پارلیمانی حل کی طرف موڑنے پر زور لگایا، موڑ بھی دیا لیکن یہ بری طرح ناکام رہی۔ حالانکہ آئین و قانون کی بالادستی کا تقاضا تھا کہ قوم کو واضح طور پر ان انتظامی اداروں کا ایکٹیوازم نظر آتا اور وہ پاناما لیکس پر اپوزیشن اور میڈیا کے تیور دیکھتے ہوئے اپنا آئینی کردار ادا کرنے میں سرگرم ہوتے تو بھی اپنے تابعدار سرکاری اداروں سے ملزم حکمرانوں کو وہ دھڑکے نہ لگتے جو جوڈیشل ایکٹیوازمIIسے پیدا ہوئے، جبکہ عمران خان بھی پاناما لیکس پر ابتدا میں تفتیشی اداروں پر زور دیتے رہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔ عوام طویل پارلیمانی حل کے نتائج سے تو مایوس ہوئے ہی تھے، نیب ایف آئی اے، سیکورٹی ایکسچینج آف پاکستان، فیڈرل بورڈ آف ریونیو ا ور اسٹیٹ بینک کی خاموشی سے اور کوئی کارروائی شروع کرنے میں واضح ہچکچاہٹ نے لیکس کے نتیجے میں حکمران خاندان پر الزامات کو درست سمجھنا شروع کردیا۔رہی سہی کسر ملزمان کی کھلی تضاد بیانی ، جناب (سابق) وزیراعظم کی(جوڈیشل ایکٹیوازم کے بعد) اسمبلی تقریر خود ہی عدالتی سماعت میں سیاسی قرار دینے اور قطری خط جیسے بےبنیاد دفاع نے عوامی شکوک کو تقریباً یقین ہی میں بدل دیا۔
یہ امر بہت غور طلب ہے کہ جناب(سابق) وزیراعظم خود ہی(پارلیمانی حل کی ناکامی کے بعد) کیس عدلیہ کے سپرد کربیٹھے۔ عدالت نے اسے ایڈریس کرنے کے قانونی راستے خود بھی نکالے اور عین آئینی اختیارات کے استعمال سے قومی ضرورت اور عوامی تمنائوں کے مطابق کارروائی شروع کردی تو، جزوی فیصلہ حکومت کے خلاف آنے کے باوجود قانونی فیصلے نے دفاع حکومت کا ہدف پورا کردیا۔ یقیناً اس سارے عدالتی عمل میں عدلیہ کا اعتبار عوامی نظر میں بہت بڑھا خود حکومت کا بھی، جو ثابت شدہ ہے۔
اس سارے پس منظر میں اب اسی عدلیہ کے مختلف فیصلوں کے سخت ترین رسپانس سے پہلے ہی کمزور کیس کی پیروی واضح ہونے پر عدالت کے باہر مسلسل سیاسی عدالت لگنے اور فیصلہ آنے کے بعد، آج جو عدلیہ انصاف پاتے حکمران خاندان میں ریمارکس بھری عدالتی کارروائی اور توہین عدالت کی مہم جوئی کے حوالے سے جو کشمکش شروع ہوئی ہے، وہ اختتام پذیر جمہوری عشرے پر ملک کے جاری جمہوری عمل ا ور سیاسی و حکومتی استحکام کے لئے تشویشناک ہے۔ پوری ن لیگ، خصوصاً جناب شہباز شریف اور خود جناب میاں نواز شریف اور محترمہ مریم نواز اور ان کے شوہر صفدر صاحب پاکستان، قوم، جمہوریت اور آئین و قانون کی خاطر سنجیدگی سے غور فرمائیں کہ وہ کس طرف چل پڑے ہیں۔ جتنا زور وہ عدلیہ اور ججز حضرات کو مشکوک اور متنازع بنانے پر لگارہے ہیں، اتنے دلائل اگر وہ فیصلوں پر قابل فہم تنقید کے حوالے سے طریقے سلیقے سے دیتے تو یقیناً ان کا ایک نتیجہ خیز فطری دبائو پیدا ہوسکتا تھا، جس کا ریلیف زیر احتساب حکمران خاندان کو ہی ملتا، جلسوں کے ذریعے توہین عدالت کی اتنی کھلم کھلا مہم جوئی انتہا کا غیر ذمہ دارانہ طرز عمل ہے۔ اس سارے پس منظر میں یونین کونسل کے الیکشن سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی یہ آبزرویشن بہت سنجیدگی سے توجہ کی طالب ہے کہ ’’میڈیا ہماری آبزرویشن‘‘ سیاق و سباق سے ہٹ کر چلا دیتا ہے، جس سے دوسری جانب سے ردعمل بھی آتا ہے، ہم نے کہا تھا سیاسی رہنما محترم ہیں، آبزرویشن ایک مفروضے پر مبنی تھی، میڈیا نے اس معاملے کو پکڑ کر کیا سے کیا کردیا، ہم اب کیا کہہ سکتے ہیں، کیس سننے میں کوشش ہوتی ہے کہ انصاف ہی ہو’’اللہ کرے سیاست و عدالت کی یہ مہلک کشمکش ختم ہو، اگر نہیں تو بہت بہتر ہوگا کہ جج صاحبان بھی حساس مقدمات کی سماعت میں سیاسی میدانوں سے عدلیہ پر ہونے والے ابلاغی حملوں کا دفاع اپنی مکمل خاموشی سے نہیں کرتے جو ایک حد سے گزرنے کے بعد واقعی مشکل تر ہے، تو پھر وہ بھی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرح اپنے تعلقات عامہ کے شعبے کو استعمال میں لاکر اپنی (عدلیہ کی) پوزیشن مختصراً عوام کے سامنے واضح کردیں، کیونکہ میڈیا میں تو پروفیشنلزم اور مطلوب درجے کی پیشہ ورانہ ذمہ داری آنے میں وقت لگے گا۔ میڈیا کی ا س بتدریج گرومنگ کا مطلب یہ نہیں کہ احتسابی عمل میں آئے سیاستدانوں اور عدلیہ میں ایک محاذ آرائی کا سا ماحول بڑھتا ہوا سیاسی اور اس کے نتیجے میں سماجی و اقتصادی عدم استحکام کا باعث بنے۔ وماعلینا الالبلاغ۔

تازہ ترین