• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسا نہیں ہے کہ ہر طرف یاس و ناامیدی ہے۔ وطن عزیز میں امید و آس کے چراغ بھی روشنی پھیلا رہے ہیں۔ جہاں ایک طرف سیاستدان ، مذہبی عناصراور اداروں کے اختیار مند ذاتی، گروہی و طبقاتی ہوس کے برہنہ اظہار کے باوصف بے نقاب ہورہے ہیں۔ وہاں معروضی کشاکش کے شکار عوام اس پیچ و خم سے سیکھتے ہوئےسیاسی بلوغت کا مظاہرہ بھی کررہے ہیں۔ اس امر کی گواہی کے لئے حالیہ محض تین واقعات آپ کے سامنے رکھتے ہیں (1) ممتاز قانون دان عاصمہ جہانگیر کی رحلت پر عوام کا بے مثال اظہار عقیدت (2) لودھراں میں مسلم لیگ کی کامیابی (3) انتہا پسندی کا داغ مٹانے کی خاطر اسلام آباد میں پختون نوجوانوں کا پڑائو..... پاکستان کی تاریخ میں قومی سیاسی رہنمائوں یا مذہبی اکابرین کے علاوہ دیگر شعبوں سے متعلق شخصیات کی وفات پر عوام کی عقیدت کی ایسی کم کم مثالیں ملتی ہیں، جیسی مرحومہ عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر برسر عام ہوئیں۔ عوامی پذیرائی و عقیدت کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کوئی شخصیت ملک گیر شہرت کی حامل ہو۔ ظاہر ہے یہ شہرت انہیں عوام ہی سے ربط و ضبط اور ان کی خدمت و محبت کے باعث ملتی ہے۔ کسی شخصیت کی وفات پر اس کی سرکاری اعزاز سے تدفین وہ معنی نہیں رکھتی، جس طرح کسی کی جدائی میں ہر اشکبار آنکھ کا نذرانہ وقعت و قدر لئے ہوئے ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کی علمبردار، ، بے لوث و اصولوں پر کاربند عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ میں جس بڑی تعداد میں خواتین سمیت ہر مکتب فکر کے لوگوں نے شرکت کی، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر طبقے، زبان، نسل، مسلک ، شعبے کے لوگوں میں ان کا یکساں احترام تھا۔ اب جب ہم مرحومہ کی خدمات پر نظر ڈالتے ہیں، تو وہ انسانی حقوق ،سماجی تبدیلی، مساوات، جمہوریت کے لئے اور آمریت کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی مختلف جہتوں پر مشتمل ہیں۔ مرحومہ نے لاپتہ افراد کے کیسز لڑے۔ یہ انسانی حقوق کے لئے خود سے بیگانگی کی لافانی مثال ہے۔محترم مسعود اشعر صاحب نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ’’عاصمہ جہانگیر نے ہمیں ’مردانگی‘ کے حقیقی مفہوم سے روشناس کرایا‘‘ گویا پاکستانی عوام نے ان کو تاریخی عقیدت کے ساتھ رخصت کرکے یہ باور کرایا کہ وہ بزدلوں ، چاپلوسوں، آمریت پسندوں اور انتہا پسندوں کو نہیں خودار، بہادراورجمہوریت پسندوں کو ہی حقیقی رہنما سمجھتے ہیں۔دوسری مثال لودھراں کا انتخابی عمل ہے۔ یہ نشست جہانگیر ترین صاحب کی تھی جہاں ان کے صاحبزادے کو بڑے مارجن سے شکست ہوئی۔ بات ہار جیت کی نہیں ہے۔ ملکی و غیر ملکی مبصرین بعض رویوں کا ان انتخابات کے تناظر میں جائزہ لے رہے تھے۔ مسلم لیگ کو آپ خواہ کسی بھی درجے میں رکھیں، میاں نواز شریف اس وقت بہر صورت اسٹیبلشمنٹ مخالف آواز مانےجاتےہیں۔ بظاہر وہ اپنے خلاف عدالتی فیصلوں پر جس نوع کی بھی تنقید کریں، لیکن بین السطور وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، عوام اسے اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ہم یہاں یہ بحث نہیں کررہے، کہ معروضی صورت حال میں مسلم لیگ یا دیگر قوتوں میںکون راہ حق پر ہے۔ ہم اس تاثر کی بات کررہےہیں جو ان دنوں نمایاں ہے ۔اس حوالے سے لودھراں کے انتخابات سے جو پیغام عام ہوا، وہ یہ ہے کہ عوام نے دراصل ان قوتوں کی نفی کی ہے جو میاں نواز شریف کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ دوسرے معنوں میں عوام نہ تو کسی قسم کے پروپیگنڈے میں آئے، اور نہ ہی ماضی کی طرح اس روایت کا اثر لیا کہ لوگ جب دیکھتے تھے کہ کسی کی کشتی منجدھار میں ہے تو وہ اسے چھوڑ جاتے تھے۔ یہ ابن الوقت سیاسی روایت ہے۔اب لگتا ہے کہ ایسی روایات دم توڑ رہی ہیںاور عوام روپ اور بہروپ میں امتیاز رکھنے کی طرف چل پڑے ہیں۔
تیسرا واقعہ جو شہروں کی چکاچوند و برق رفتار زندگی سے دور کہیں دور، بلند و بالا کوہساروں کے دامن میں پھیلتی روشنی کی امید لئے ہوئے ہے۔ وہ پختون قومی جرگے کے تحت اسلام آباد میں پختون بالخصوص محسود نوجوانوں کا پر امن اور لاجواب پڑائو ہے۔ ہمیں برادر اسماعیل محسود نے بتایا کہ جرگے کے مطالبات پر مکمل عملدرآمد کی توقع ہے۔ تاہم ان سطور میں ہم مطالبات کی پیش رفت کی بجائے اس عوامی شعور کی جانب آپ کی توجہ چاہتے ہیں جو تاحد نظر پورے پختون خطے کا مستقبل منور کرنے کی خاطرتابندہ ہے۔ اگر پاکستانی میڈیا اس دھرنے کا بائیکاٹ نہ کرتی ، تو ہم وطن دیکھ پاتے کہ کس طرح وہ نوجوان جن پر طالبان کا گمان اغلب رہتا ہے وہ قرائن و شواہد سے ان تمام تہمتوں کو بہتان ثابت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کس طرح ان کو یرغمال بناکر ان کا چہرہ مسخ کرکے پیش کیا گیا اور ان کے بچوں و نوجوانوں کو نام نہاد جہادوں میں بطور چارہ استعمال میں لایا گیا۔  نوجوان مقررین نے وہ حقائق طشت از بام کیے جنہیں آج تک نام نہاد ملکان زبان پر لانے کی ہمت نہیں کر سکے۔انتہا پسندی کے خاتمے، پختونوں کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لانے اور درپیش مشکلات کے خاتمے کیلئے وزیرستان سے ایک بیدار مغز و نڈر نوجوان منظور پشتون کی قیادت میں شروع ہونے والے مارچ کا جس طرح پختونخوا کے ہر شہر و شاہرہ پر تاریخی استقبال ہوا ،اور پھر لوگ ان کے ساتھ شامل ہوتے ہوئے اسلام آباد پہنچے، وہ اس امر کا اعلان تھا کہ قبائل وپختونخوا کے شہری علاقوں و دیہات کی سوچ ایک ہے۔ قابل رشک واقعہ یہ ہے کہ جب نام نہادملکان نے حکومت سے ساز باز کرکے دھرنے کو ختم کرنا چاہا تو نوجوان ان کی راہ میں دیوار بن گئے۔ روایتی طورپر ملکان( نام نہادنمائندے) اس طرح کے فیصلے کرتے ہیں اور حکومت سے مراعات لیتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ  وطن فروش اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں نامراد ٹھہرے۔ محسن داوڑ، بادشاہی خان جیسے باصلاحیت اصحاب کی ایک بھرپورفہرست ہے جو تحریک کے راہ رو تھے۔ مختصر یہ کہ جب ’ ملکان ‘کی بات نوجوانوں نے نہیں مانی، تواسٹیج کے کنٹینر اور دھرنے کے لئے جمع شدہ رقم ساتھ لے کر وہ دھرنے سے نو دو گیارہ ہوگئے۔ یہ نوجوان مگر بے سرو سامانی کے عالم میں بھی ڈٹے رہےاور بالآخر قدرت نے انہیںسُرخ رو کیا۔
عرض یہ کرنا چاہتے ہیں کہ نام نہاد وطن فروشوں کی غلامی سے ان نوجوانوں کی آزادی، امن کی بات کرنا، قبائل اور شمالی و جنوبی پختونخوا کے عوام کا دہشت گردی کے خلاف مشترکہ محاذ بنانا اس بات کا غماز ہے کہ عوامی بیداری کی تازہ لہر چل پڑی ہے۔ بنابریں جب ہم لودھراں کے انتخابات، عاصمہ جہانگیر مرحومہ سے اظہار عقیدت اور جرگے کے دھرنے، یعنی ان تینوں واقعات کو ملاتے ہیں تو ایک سوچ اُبھرتی ہے کہ عوام پروپیگنڈے کی بجائے برسر زمین حقائق کو مدنظر رکھتے ہیں۔ بالخصوص محترمہ عاصمہ جہانگیر سے اظہار عقیدت اورعوام کی جانب سےباریش نام نہاد نمائندوںپر ایک نوجوان منظور پشتون کو ترجیح، اس سوچ کا اظہار ہے کہ عوام صرف اُن لوگوںکو تاج پہناتےہیںجو سچے ،قول کے پکے اور وطن دوست ہوتےہیں ......

تازہ ترین