• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرمایہ کاری کی غرض سے حاصل کئے گئے قرضے اور ان کا صحیح اور بر وقت استعمال ان کی واپسی یقینی اور آسان بنا دیتا ہے اور مطلوبہ نتائج بھی حاصل ہو جاتے ہیں لیکن 70سال کی تاریخ میں ہماری یہ بدقسمتی رہی ہے کہ قرضوں کی بر وقت واپسی نہ ہونے سے ان پر سود بڑھتا گیا یہاں تک کہ پرانے قرضے اتارنے کے لئے نئے قرضے حاصل کرنے کی ریت پڑگئی۔ اسٹیٹ بینک آف پا کستان کی تازہ رپورٹ کے مطابق ملک کے مجموعی قرضے اور واجبات 268کھرب روپے کی صورت میں تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکے ہیں جو یقینا خطرے کی گھنٹی ہے۔ ملک میں اب تک کئی مالی بحران آئے، دو بڑی جنگیں بھی لڑی گئیں، ایٹمی دھماکے بھی کئے گئے جس کے بعد قومی معیشت کو دیوالیہ پن جیسی صورت حال کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن قرضوں کی مالیت یہاں تک پھر بھی نہ پہنچی۔ حیرت ہے کہ جمہوری استحکام اور تمام اداروں کے ایک پیج پر ہونے کے باوجودقرضوں میں یہ بے پناہ اضافہ ہوا جس نے قوم کو ایک نئی تشویش میں ڈال دیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق 2016-17 میں قرضوں کے بوجھ میں34کھرب 77ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں اب تک مجموعی طورپر 9کھرب 91ارب روپے کے نئے قرضے لئے جا چکے ہیں۔ اب سوچنے سے زیادہ عمل کرنے کا وقت ہے۔ وفاقی بجٹ 2018-19 تیاری کے مراحل میں ہے، آئندہ مالی سال کے اہداف کا تعین بھی کرنا ہے دوسری طرف بجلی، گیس اور پیٹرول جیسی بنیادی ضروریات کی حامل ضروریات زندگی کی قیمتیں بھی اپنی حدوں کو چھو رہی ہیں جس کے نتیجے میں عام آدمی مہنگائی کی دلدل میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ ان حا لات میں امید کی یہ کرن معیشت کو آنے والے شدید بحران سے نکال سکتی ہے کہ بیرونی ملکوں میں رکھا گیا کھربوں روپے مالیت کا سرمایہ واپس لانے کے لئے ہرپہلو سے سوچ بچار اور ماہرین کی ا ٓرا کی روشنی میں حتمی لائحہ عمل طے کیا جائے۔

تازہ ترین