• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ سال نئی ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوائن پر لکھے گئے کالم میں، میں نے بٹ کوائن کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ دسمبر 2017ء میں بٹ کوائن کی قیمت 10,000 ڈالر سے 15,000 ڈالر اور پھر 20,000 ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی اور لوگ بٹ کوائن میں تیزی سے سرمایہ کاری کرنے لگے مگر 2 فروری 2018ء کو بٹ کوائن کی قیمت گرکر آدھے سے بھی کم 7,614 ڈالر پہنچ گئی اور آج کل 8 سے 9 ہزار کے درمیان ٹریڈنگ ہورہی ہے۔ بٹ کوائن کے ارب پتی سرمایہ کار مائیک نووگریٹس جو 500 ملین ڈالر بٹ کوائن کا ایک مرچنٹ بینک کھولنا چاہتے تھے، نے اپنا ارادہ بدل کر سرمایہ کاروں کو خبردار کیا ہے کہ بٹ کوائن کی قیمت 8,000 ڈالر کی سطح تک گرسکتی ہے۔ بٹ کوائن کے دوسرے بڑے سرمایہ کار تھامس لی نے بھی پیش گوئی کی ہے کہ بٹ کوائن 9,000 ڈالر کی سطح پر رہنے کا امکان ہے۔ جنوری 2018ء میں بٹ کوائن میں مجموعی سرمایہ کاری 700 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی لیکن سرمایہ کاروں نے نقصان سے بچنے کیلئے گھبراہٹ میں فروخت کئے جس کی وجہ سے بٹ کوائن مارکیٹ کریش ہوئی اور سرمایہ کاروں کی آدھی سے زیادہ رقم ڈوب گئی۔ سان فرانسسکو میں بٹ کوائن کی ایک کمپنی نے بتایا ہے کہ اب تک 10 لاکھ افراد نے بٹ کوائن فروخت کرنے کیلئے ان کی کمپنی سے رجوع کیا ہے۔
میں نے اپنے کالم میں بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کو ہائی رسک سرمایہ کاری قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ دنیا کے مرکزی بینکس بٹ کوائن کے استعمال پر خوش نہیں کیونکہ ان کا اس کی ٹرانزیکشن پر کوئی کنٹرول نہیں۔ اس سلسلے میں دنیا کے بڑے مرکزی بینکوں کے گورنرز اور صدور نے دبئی کے خلیج ٹائمز اخبار میں بٹ کوائن ورچوئل کرنسی پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔یو اے ای کے مرکزی بینک کے گورنر مبارک راشد المنصوری نے کہا ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی بینکنگ چینل سے نہیں گزرتی لہٰذا اس کی مانیٹرنگ نہیں کی جاسکتی جس کی وجہ سے اسے منی لانڈرنگ اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ امریکہ کے فیڈرل ریزرو بینک کے صدر جرومی پاول نے ڈیجیٹل کرنسی کو مرکزی بینکوں کیلئے ایک بڑا چیلنج قرار دیا ہے۔ یورپی یونین سینٹرل بینک کے صدر ماریو ڈراگی نے کہا ہے کہ ہمارے مرکزی بینکس یورو زون کی معیشت پر کنٹرول رکھتے ہیں اور ڈیجیٹل کرنسی سے یورو زون پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔بینک آف انگلینڈ کے گورنر مارک کارمی نے کہا ہے کہ مرکزی بینکوں کو سائبر کرائم اور ڈیجیٹل ادائیگیوں سے نمٹنے کیلئے اپنی صلاحیتوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ جرمنی کے ونڈس بینک کے صدر جیمز وڈمین نے کہا کہ صرف اس بنیاد پر کہ بٹ کوائن میں سرمایہ کار نقصان اٹھاسکتے ہیں، مرکزی بینکوں کو اس میں ملوث نہیں ہونا چاہئے۔ بینک آف کینیڈا کی سینئر ڈپٹی گورنر کیرولین وکنگز نے بٹ کوائن کو حقیقی کرنسی ماننے سے انکار کرتے ہوئے اسے ایک سرمایہ کاری اور سیکورٹی قرار دیا ہے جبکہ بینک آف جاپان کے چیف ایگزیکٹو ہیروہیکو کرودا نے بھی بٹ کوائن کے کرنسی ہونے پر سوال اٹھایا ہے۔ پیپلز بینک آف چائنا نے ڈیجیٹل کرنسی ٹیکنالوجی کو اپنانے کے ساتھ بٹ کوائن کی ٹریڈنگ کو روکنے کی سفارشات دی ہیں۔ روس کے مرکزی بینک کے گورنر الویرا نویل اولینا نے بٹ کوائن کے خطرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بلومبرگ نے بٹ کوائن کی مانیٹرنگ کا تقاضا کیا ہے جبکہ مرکزی بینکوں کے مرکزی بینک (BIS) نے کہا ہے کہ پالیسی میکرز ڈیجیٹل کرنسی کی گروتھ کو نظر انداز نہیں کرسکتے، بٹ کوائن ایک ہائوس ہولڈ نام بن چکا ہے لہٰذا مرکزی بینکوں کو سوچنا ہوگا کہ کیا انہیں مستقبل میں اپنی ڈیجیٹل کرنسی متعارف کرانی چاہئے کیونکہ بٹ کوائن میں سرمایہ کاری سے ان کے بینکوں کے ڈپازٹس میں کمی آئے گی۔ انڈیا کے سینٹرل بینک نے ڈیجیٹل کرنسی کی مخالفت میں کہا ہے کہ یہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی میں استعمال ہوسکتی ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے تجویز دی ہے کہ کیا دنیا کے مرکزی بینکس قانونی طور پر اپنی ڈیجیٹل کرنسی متعارف کراسکتے ہیں جو ان کے فارن ایکسچینج قوانین کے خلاف نہ ہوں۔ متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں ایک کمپنی کو DMCC میں بٹ کوائن ٹریڈنگ کا لائسنس جاری کیا ہے۔
منی لانڈرنگ کو روکنے کیلئے دنیا بھر میں سخت اقدامات کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے اب بینکوں کے ذریعے رقوم کی منتقلی مشکل بنتی جارہی ہے۔ حال ہی میں یورپی یونین نے یو اے ای اور بحرین سمیت کئی ممالک کو منی لانڈرنگ کے سلسلے میں بلیک لسٹ کیا ہے۔کمرشل بینک رقوم بھیجنے اور وصول کرنے والے کی تفصیلات اور رقوم بھیجنے کا مقصد پوچھنے کے مجاز ہیں۔ مرکزی بینک بڑے رقوم کی ٹرانزیکشنز کی مانیٹرنگ کرتے ہیں اور شک و شبے کی بنیاد پر بھیجی جانے والی رقوم منجمد یا جانچ پڑتال کیلئے روک لی جاتی ہیں۔ انہی وجوہات کے پیش نظر 3 جنوری 2009ء کو دنیا کی پہلی ڈیجیٹل الیکٹرونک کرنسی ’’بٹ کوائن‘‘ متعارف کرائی گئی۔ اس ڈیجیٹل کرنسی میں بینک کی مداخلت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے بٹ کوائن دنیا میں تیزی سے مقبول ہوئی۔ حال ہی میں یورپی ممالک کی پولیس یورو پول نے انکشاف کیا ہے کہ کرپٹو کرنسی بٹ کوائن کے ذریعے 3 سے 4 ارب پائونڈز کے کالے دھن کو سفید کیا جارہا ہے۔ یورو پول کے ڈائریکٹر راب رین رائٹ نے بی بی سی کے پروگرام میں کہا ہے کہ کرپٹو کرنسیوں کے بارے میں قانون سازی کم ہونے کی وجہ سے کئی جرائم پیشہ عناصر نے اس کرنسی کو اپنایا ہے۔
فروری 2015ء تک ایک لاکھ سے زیادہ مرچنٹس نے بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کی جو اب بڑھ کر کیمبرج یونیورسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق 30 لاکھ مرچنٹ تک پہنچ گئی ہے جس کی مارکیٹ ویلیو تقریباً 700 ارب ڈالر ہے جو ڈزنی، وال مارٹ اور ویزا کی مجموعی ویلیو سے زیادہ ہے۔2001ء میں جب بٹ کوائن متعارف کرایا گیا تو اس کی قیمت ایک ڈالر تھی ، 2016ء کے شروع میں اس کی قیمت 450 ڈالر اور 2017ء کے شروع میں اس کی قیمت 1,000 ڈالر جبکہ دسمبر 2017ء میں یہ بڑھ کر 20,000 ڈالر کی اونچی ترین سطح تک پہنچ گئی جس سے سرمایہ کاروں نے 800 سے 1000 فیصد تک منافع کمایا۔بٹ کوائن کی ویلیو میں مسلسل اضافہ سرمایہ کاروں کیلئے پرکشش تھا جو میرے خیال میں سٹہ بازی تھی جس کا فائدہ ان سرمایہ کاروں نے اٹھایا جو بٹ کوائن کی قیمت بڑھنے پر بٹ کوائنز فروخت کرکے مارکیٹ سے نکل گئے جبکہ وہ لوگ جنہوں نے بٹ کوائن کی قیمت میں مزید اضافے کے پیش نظر اونچی سطح پرسرمایہ کاری کی تھی، آج اپنا آدھا سے زیادہ سرمایہ گنوا بیٹھے ہیں۔ بٹ کوائن کی ویلیو کا انحصار اس کی سپلائی اور ڈیمانڈ پر منحصر ہوتا ہے اور موجودہ حالات میں بٹ کوائن کی تیزی سے گرتی ہوئی قیمتوں کے خوف سے مارکیٹ میں اس کی سپلائی زیادہ اور ڈیمانڈ کم ہے۔
منی لانڈرنگ کے خدشات کے پیش نظر امریکہ اور چین نے بٹ کوائن پر پابندی عائد کردی ہے جبکہ پاکستان اور بھارت میں بھی بٹ کوائنز پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ بٹ کوائنز کی ٹرانزیکشن خفیہ ہوتی ہیں اور اس کی کوئی منی ٹریل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اس کی ٹرانزیکشن کو ٹریس نہیں کیا جاسکتا۔ بٹ کوائن کسی ایک ملک کی کرنسی نہیں اور نہ ہی اس پر بینکوں کے ضابطوں کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ معاشی پابندیوں کے زمرے میں بٹ کوائن کی سرمایہ کاری اور اکائونٹس کو منجمد نہیں کیا جاسکتا۔ بٹ کوائن تدریج کے مراحل میں ہے اور میرے خیال میں بٹ کوائن میں سرمایہ کاری ایک بڑا رسک ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ ایک صبح جب آپ سوکر اٹھیں تو 20 لاکھ روپے میں خریدے گئے بٹ کوائن کی قیمت آدھی رہ جائے جیساگزشتہ ہفتے دیکھنے میں آیا۔ مجھے ان خواتین پر افسوس ہے جنہوں نے اپنے زیورات اور پلاٹس فروخت کرکے بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کی اور آج مزید نقصانات سے بچنے کیلئے اپنی سرمایہ کاری آدھی سے کم قیمت پر فروخت کررہی ہیں۔ میرا قارئین کو مشورہ ہے کہ کم وقت میں غیر معمولی منافع ملنا یقینا ًہائی رسک سرمایہ کاری ہوتی ہے جس میں نقصانات کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں لہٰذا ہمیں کسی بھی نئی چیز میں سرمایہ کاری کیلئے اس کے رسک کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔

تازہ ترین