• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان میرا ہیرو تھا، میں بھی لاکھوں کروڑوں لوگوں کی طرح اس کا مداح تھا اب مایوس ہوں۔ وہ رول ماڈل تھا نوجوانوں کا ، بزرگوں کا، بہو بیٹیوں کا، دنیا اسے دیکھ کر اپنا طرز زندگی بدلنے کو تیار تھی، خواتین، نوجوان، بچے، بچیاں اسے اپنا ہیرو مانتے تھے، وہ اندر سے گورا تھا، دیسی بننے نکلا۔ پاکستان کی تقدیر بدلنا چاہتا تھا راستے میں بھٹک گیا۔ سیاست میں آنا کوئی غلطی نہیں، دلوں پر راج کرنا خوش بختی ہے اس سے بڑھ کر اللہ کا جو فضل و کرم ہوتواس کا احترام کرنا سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ خدا نے عمران خان کو ان تمام نعمتوں سے نوازا جو کوئی خوش بخت اس دنیا میں تصور کرسکتا ہے۔ کرکٹ کا وہ شہنشاہ بنا، پاکستان کے سرپر ورلڈ کپ کا تاج سجایا، یقیناً یہ اللہ کے کرم اور عمران خان کی قیادت اور ٹیم ورک کا ہی نتیجہ تھا۔ ان کامیابیوں کے پیچھے ماں باپ ، دوست احباب کی دعائوں سے بڑھ کر عوام کے وہ آنسو بھی تھے جو پاکستان کی کامیابی کے لئے ورلڈ کپ کے ہر میچ کے دوران گرے۔ یہی وہ جذبہ تھا جو عمران خان اپنی والدہ کی یاد میں شوکت خانم اسپتال بنانے میں کامیاب رہا اور اسی جذبے نے عمران خان کو سیاست میں آکر پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کا خواب دکھایا۔ وہ منظر بھی یاد ہے جب غریبوں ، بیوائوں، یتیموں، اسکول کے بچوں، کالج یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوانوں نے شوکت خانم کینسر اسپتال کی تعمیر کے لئے روپیہ، پیسہ، زیورات، گھروں کی رجسٹریاں تک عمران خان پر نچھاور کر دیں۔ بچوں نے روشن مستقبل کی امید پر اپنا روزانہ کا جیب خرچ ایک روپیہ دو روپے تک دے دیئے۔ صرف اس امید کے ساتھ کہ یہ شخص ہماری، ہمارے پاکستان کی تقدیر بدل دے گا اور باصلاحیت نوجوانوں، غریبوں، پڑھے لکھے بزرگوں، سب سے بڑھ کر دیانت دار مخلص کارکنوں کو پارٹی میں اعلیٰ مقام دے کر منتخب ایوانوں تک پہنچائے گا اور صحیح معنوں میں غریب کا نمائندہ بنے گا۔ 2013 ء کے انتخابات سے قبل حالات کا دھارا بدلا، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، صنعت کاروں نے تحریک انصاف میں ایسا مورچہ لگایا کہ کارکن کہیں نظر نہ آئے۔ وہ کارکن جنہوں نے تحریکِ انصاف کو زندہ رکھنے کے لئے ہر مشکل وقت میں دن رات ایک کردیا۔ پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت یہ سرمایہ دار، جاگیردار،’’ ہیلی کاپٹر گروپ‘‘ چھا گیا اور غریب رُل گیا، اس کی امیدیں ٹوٹ گئیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت، رہنما یا انتخابی امیدوار کا ووٹر کے دل میں تا دیر رہنا اور بیلٹ بکس تک پہنچانے کا مرحلہ بڑا کٹھن ہوتا ہے۔ کوئی اس بارے میںتحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے پوچھے یا جہانگیر ترین سے۔ حقیقت یہ ہے کہ مانگے تانگے کاسیاسی سفر کبھی دیر پا نہیں ہوتا۔ ایسی سیاسی جماعت کبھی مقبول ترین نہیں رہتی جس کی قیادت بالغ نظر نہ ہو۔ ہوا کے رُخ وقتی طور پر عوام کو اپنے سحر میں لینے والی سیاسی قیادتوں کو ایسے ہی نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ لودھراں کے ضمنی انتخاب میں دیکھا گیا۔ پاکستان وہ بدقسمت ترین ملک ہے جہاں جمہوریت سے زیادہ آمریت مسلط رہی اور آمریت کی گود سے جنم لینے والی اور کھوکھلے نعروں کی بنیاد پرزندہ رہنے والی زیادہ تر سیاسی جماعتیں وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ اپنی موت آپ مر گئیں۔ تحریک انصاف عمران خان سے ہے اور عمران خان تحریک انصاف سے۔ بدقسمتی سے دونوں نے ایک دوسرے سے کوئی انصاف نہیں کیا۔ عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ وہ کانوں کے بہت کچے ہیں۔ وہ اپنے ویژن پر عمل کرنے کے بجائے ایسے افراد میں گھر گئے جو اپنے مفادات کی خاطر ا نہیں محاذ آرائی کی طرف لے گئے اور اس سیاسی محاذ آرائی نے آج ذاتی سیاسی جنگ کا رخ اختیار کرلیا ہے۔ عمران خان کو میں جس حد تک سمجھ سکا ہوں نہ وہ گورا ہے نہ دیسی۔ بس یوں سمجھئے کہ کسی گورے کو شلوار قمیض پہنانے سے وہ پاکستانی نہیں بن جاتا۔ عمران خان آج کیوں ناکام ہو رہا ہے، عوام مایوس کیوں ہورہے ہیں؟ اور وہ ’’سنگل‘‘ کیوں ہے؟ (ن) لیگ کے مقابلے میں واحد مضبوط ترین سیاسی جماعت پے در پے زوال کا شکارکیوں ہے؟ اگر سادہ الفاظ میں کہا جائے تو ایلیٹ کلاس کا نمائندہ کبھی غریب کا ہمدرد نہیں ہوسکتا ۔ اسے مزدور کے پسینے سے بو ہی آئے گی خوشبو نہیں۔ وہ سیاسی کارکنوں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد نہیں سمجھتا۔ کسی غریب سیاسی کارکن یا رہنما کے گھر خوشی غمی میں شریک نہیں ہوتا۔ کسی بیوہ ماں کا سہارا بنا نہ اس کے دکھ درد کا کوئی مداواکیا۔ پارلیمنٹ کے اندر ایک سال میں صرف دو دن گیا۔ اپنی سیاسی آئینی و قانونی کمزوریوں پر پردہ ڈالتا رہا۔ زبان پر کنٹرول رکھا نہ جذبات پر۔ ہر اہم مرحلے پر جہاں قوم کو اس کی ضرورت تھی وہاں خاموش رہا۔ جہاں خاموش رہنے کی ضرورت تھی وہاں زبان ضرور کھولی۔ جب قوم دکھوں میں تھی تو اپنا گھر بسانا یاد آگیا۔ خان صاحب آپ اکیلے منزل پا سکتے تھے قوم آپ کے ساتھ تھی لیکن اقتدار پانے کی خواہش نے آپ کو سیاسی بیساکھیوں کا سہارا لینے پر مجبور کیا۔آپ سیاست کو ’’ پجارو گروپ‘‘ سے’’ہیلی کاپٹر گروپ‘‘ تک لے آئے۔ کیا یہ ہمارا نصیب تھا؟ نہیں جناب! ہم چاہتے تھے کہ اس ملک میں اسٹیٹس کو ٹوٹے، چند خاندانوں کی سیاسی اجارہ داری ختم ہو، جہانگیر ترین کے بیٹے کی جگہ کوئی غریب امیدوار ہوتا اور اس کی سیاسی ومالی پشت پناہی جہانگیر ترین کرتے تو یہ انقلاب تھا، یہ تبدیلی تھی، شکست ہو جاتی تو آپ حق بجانب تھے مگر ایسا نہ ہوا، آپ نے بھی خاندانی سیاست کو پروان چڑھایا، کھوکھلے نعرے لگائے، ذاتی عناد کی بنیاد پر تقریباً پانچ سال عوام کو سڑکوں پرگھسیٹا۔ کتنا پیسہ اور وقت برباد کیا۔ لودھراں کے ضمنی انتخاب میں (ن) لیگ کی حیران کُن کامیابی، تحریک انصاف کی ناکامی ۔ مستقبل کے سیاسی حساب کتاب کا کوئی پیمانہ نہیں بس دلوں کو تسلی دینے کے بہانے ہیں۔ پاکستان کی سیاست عام انتخابات سے قبل ایک نئی کروٹ لے رہی ہے۔ تبدیلی کی جو امید دہائیوں سے لگا رکھی تھی شاید آنے والے انتخابات میں بر آئے۔ وڈیروں، جاگیرداروں، مافیاز کے اس نظام کو ٹھوکر لگنے والی ہے جو ہمیں دیمک کی طرح کھائے جارہا ہے۔ لودھراں کا ضمنی انتخاب ہو یا این اے 120 لاہور کے انتخابی نتائج، ہمیں اشارہ دے رہے ہیں کہ پاکستان کی تقدیر یقیناً بدلے گی۔ یہاں خلق خدا ہی راج کرے گی۔ آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ انتخابی نتائج ن لیگ کے حق میں ہیں تو تبدیلی کیسے آئے گی۔ تو جناب ذرا دیکھئے اور سوچئے بیگم کلثوم نواز کامیاب تو ہو گئیں مگر مقابلے میں ڈاکٹر یاسمین راشد جو جاگیردار ہے نہ سرمایہ دار ایک کارکن کی حیثیت سے2013 ء کے عام انتخابات کی نسبت زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ اسی طرح لودھراں کے ضمنی انتخاب میں ایک بڑے جاگیردار اور سرمایہ دار کے مقابلے میں ایک کم تر درویش منش کامیاب ہوگیا۔
کیا یہ تبدیلی کے واضح اشارے نہیں کہ عوام اس جاگیردارانہ نظام سے نجات چاہتے ہیں مگر ان کے پاس کوئی چوائس نہیں۔ وہ صالح اور مخلص رہنمائوں کو منتخب ایوانوں تک پہنچانا چاہتے ہیں مگر ہماری سیاسی قیادتیں زوال کا شکار ہیں۔ خان صاحب انقلاب تو دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ آپ نے ہی محسوس نہیں کیا۔ تبدیلی اور انقلاب کے لئے مٹی میں مٹی ہونا پڑتا ہے۔ کاش آپ کچھ فہم و فراست ، تدبر ، صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتے، عوام کے اندر رہتے، بنی گالا کے بجائے زمان پارک کو اپنی سیاست کا مرکز بناتے تو آج نتائج مختلف ہوتے۔ مگر آپ نے جنگلوں اور پہاڑوں میں بسیرا کرلیا، اپنے لوگوں سے دُور ہوگئے عام کارکن کو نظر انداز کر دیا۔ نتیجہ آج آپ لودھراں میں ’’ سنگل‘‘ ہوگئے۔ میرا درد تحریک انصاف یا عمران خان کی ناکامی نہیں مجھے فکر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی پے درپے ناکامیوں اور زوال سے ہے۔ ہمارے سیاسی زعماء نے تدبر سے کام نہ لیا توآنے والا وقت زیادہ کڑااور مشکل ہوگا۔ بس اشارہ ہی کافی ہے۔

تازہ ترین