• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد میں ایک طرف شاہد خاقان عباسی حکومت کے آخری بارہ تیرہ ہفتوں کا کائونٹ شروع ہے اور دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف کی طرف سے ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت عدلیہ سمیت مختلف اداروں پر دبائو بڑھایا جارہا ہے جس سے مستقبل کے سیاسی حالات کے بارے میں کئی خدشات بڑھتے جارہے ہیں، جس سے بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ عدلیہ کے وقار کو برقرار رکھنے اور دوسری طرف سیاسی روایات یا سوچ کی بالادستی کی لفظی جنگ میں دن بدن تیزی کسی بھی لحاظ سے ہمارے ملک کے لئے اچھی نہیں ہے، یہ حالات اگر چند ہفتے اسی طرح چلتے رہے تو مفاہمت اور مصلحت دونوںکے دروازے بند ہوتے جائیں گے جس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا امیج دھندلا ہوسکتا ہے۔ ا س کا فائدہ شاید کسی کو ہو یا نہ ہو مجموعی طور پر ہمارے ملک اور کڑوروں عوام کو ہوگا جو بے چارے نہ تو کسی حکومت یا طاقتور ادارے کا حصہ ہیں اور نہ ہی پارلیمنٹ وغیرہ تک ان کی رسائی ہے۔ یہ بے چارے لوگ ہماری مجموعی آبادی کا85فیصد سے بھی زائد ہیں جس میں 65سے 70فیصد تک تو دو وقت کی روٹی کے لئے ٹکریں مارتے رہتے ہیں، باقی رہی مڈل کلاس جو اپنی سفید پوشی پر زندہ نظر آتی ہے اسے یہ فکر ہے کہ اگر پاکستان میں محاذ آرائی کا یہ سلسلہ اس ہی طرح بڑھتا رہا تو ہمارے معاشی حالات پر اس کا گہرا اثر پڑے گا جس سے غربت اور جہالت سمیت کئی مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ماہ مئی کے وسط میں حکومت اپنا آخری بجٹ پیش کرنا چاہتی ہے جو کہ ہر لحاظ سے ایک ریکارڈ ہوگا، حکومت پانچ سالہ اقتدار میں چھٹا بجٹ دے رہی ہے، یہ حکومت کی بڑی ہوشیاری ہے کہ وہ بجٹ میں کئی ایسے اقدامات کرسکتی ہے جس کو آنے والی نگراں حکومت اور پھر سال کے آخر میں بننے والی نئی حکومت کو بھگتنا پڑے گا۔
یہ بھی عباسی حکومت اور مسلم لیگ حکومت کا کمال ہوگا کہ ان کے اعلان کردہ بجٹ پر عملدرآمد کو آنے والے حکمرانوں یا نگرانوں کو کرناپڑے گا، ویسے تو یہ بہترین وقت ہے کہ حکومت اپنے آخری بجٹ میں معیشت کی سمت درست کرنے کے لئے کچھ مثبت اصلاحات کا اعلان کردے جس میں ٹیکسوں کے متوازی اور منصفانہ نظام کے تحت’’سنگل ٹیکس سسٹم سب کے لئے‘‘ کی پالیسی کا اجرا کردیا جائے، غیر دستاویزی معیشت کی حوصلہ شکنی کے لئے ایف بی آر صرف ریڑن فائلرز کی حوصلہ افزائی کرے اور نان ریڑن فائلرز کو ہر صورت میں ٹیکس نیٹ میں لائے، اس وقت پاکستان میں تجارت اور صنعت سے وابستہ 20لاکھ سے زائد ایسے کاروبار اور افراد ہیں جنہیں ذرا سی سختی، محنت اور نیک نیتی سے ٹیکس نیٹ میں لایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی نیا قرضہ (ملکی وغیر ملکی) نہ لینے کا اعلان بجٹ میں کردیا جائے تاکہ بجٹ اور معیشت پر ڈٹ سروسز کا بڑھتا ہوا بوجھ کم کیا جاسکے، اگر یہ سب کچھ نہیں کیا جاتا تو معاشی فرنٹ پر حکمرانوں یا ایلیٹ کلاس کے بجائے عام افراد کی مشکلات اور مسائل میں خاصااضافہ ہوسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر سیاسی ماحول میں گرما گرمی بڑھتی رہتی ہے تو اس سے کاروباری اور معاشی طور پر مشکلات اور مسائل بڑھیں گے، اس لئے وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ بڑھتے ہوئے سیاسی ٹمپریچر کو کم کرنے کے لئے کسی نہ کسی سطح پر مصالحت یا معافی اور قانون کی مکمل طور پر حکمرانی کو یقینی بنانے کے لئے کوئی آپشن سوچا جائے، ورنہ سیاسی مقاصد کی آڑ میں برقرار رکھی جانے والی ضد سے پارلیمنٹ اور سیاستدانوں کے لئے مسائل بڑھ سکتے ہیں جس کے بعد بڑے بڑے جلسوں اور دعوئوں سے بھی کچھ نہیں ملے گا۔ اس لئے احتیاط اور سمجھداری سے ٹمپریچر کو کم کرکے حکمت کے تحت معاملات کا حل سوچا جانا چاہئے۔

تازہ ترین