• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ غالباً نومبر2017ء کے آخری ہفتے کی بات ہے کہ میں گھر پہنچا تو پتہ چلا کہ لاہور ٹریفک پولیس کی طرف سے ای چالان آیا ہے ، جس میں درج ہے کہ آپ نے مال روڈ پر سگنل کی خلاف ورزی کی ہے جس کی پاداش میں پانچ سو روپیہ جرمانہ کیا جاتاہے، تاہم سا تھ یہ بھی لکھا تھا کہ ادائیگی نہیں کرنی یہ صرف تنبیہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ میں بہت ہی خوش ہوا کہ چلو کہیں نہ کہیں تو قانون کی عملدداری شروع ہوئی ۔ ذاتی طور پر سبق بھی حاصل ہوا کہ 1985ء سے احتیاط کیساتھ گاڑی چلا رہا ہوں کہ آج تک چالان نہیں ہوا مگر اب مزید احتیاط کرنا ہوگی ۔ اس چالان کی پرچی کو میں روز پڑھتا ہوں جس میں رولز کے مطابق 24 مختلف خلاف ورزیوں پر چالان اور جرمانے کی رقم درج ہے ۔ان پر غور کر نے سے لاہور کی شاہراہوں پر ہونیوالی ٹریفک کی خلاف ورزیاں اورٹریفک وارڈن کی نااہلیاں بہت سے سوالات کھڑے کر دیتی ہیں ۔ اخلاقیات ، قانون ، رولز اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جن قوانین پر عمل درآمد کیا جانا ہے اُس سے پہلے دیکھا جائے کہ وہ تمام حالات ایک جیسے ہیں ، کیا ٹریفک پولیس کی جو ذمہ داریاں ہیں، اُ س نے ٹریفک کی روانی کیلئے جو شہریوں کو سہولتیں فراہم کرنی ہیں وہ ہر شہری کو حاصل ہیں ۔ جس معیار کی سڑکیں ہونی چاہئیں وہ موجود ہیں ، سڑکوں پر ہر روز کوئی نہ کوئی محکمہ کھدائی کر رہا ہوتاہے ،کیا سڑکوں پر روانی سے ٹریفک چل سکتا ہے ، کیا تجاوزات تو آڑے نہیں آ رہیں ، کیا جہاں ٹریفک سگنلز کی ضرورت ہے وہاںموجود ہیں ، کیا وہ 24گھنٹے صحیح کام کر رہے ہیں۔کیا جہاں جتنے ٹریفک وارڈنز کی ضرورت ہے وہ موجود ہیں، کیا وہ اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے نبھا رہے ہیں ۔ کیا ٹریفک سگنلز کی ٹائمنگ متعلقہ سگنل سے گزرنے والی ٹریفک کے بہائو کے مطابق ہے۔ کیا ٹریفک پولیس ہر شہری سے یکساں سلوک کر رہی ہے ۔ اگرٹریفک کا نظام صحیح چل رہا ہے تو اسقدر حادثات کیوں ہو رہے ہیں ، موٹروہیکل آرڈیننس اور رولز کے تحت جن ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں اُن کو ناپنے کا معیار کیا ہے؟ یہ جو ہر وقت وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے شہریوں کے صبر کاامتحان لیا جاتا ہے اور ٹریفک کا نظام تباہ ہوگیا ہے ، اس کا ذمہ دار کون ہے ، یہ سب ایسے سوالات ہیں جن کو نہ تو ٹریفک پولیس نے اور نہ ہی حکمرانوں نے سنجیدگی سے لیا ہے، بلکہ ایسے ایسے بھونڈے قسم کے ٹریفک انتظامات کئے ہیں جنکی وجہ سے پورے پنجاب اور خصوصاً لاہور کے شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی گئی ہے۔ لاہور کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ہے ، سینکڑوں اہم شاہراہوں سمیت چھوٹی بڑی سڑکوں پر صرف157ٹ ریفک سگنلز نصب ہیں، جبکہ ٹریفک پولیس کی رپورٹس کے مطابق مزید سو کے قریب سگنلز کی ضرورت ہے ۔ لیکن افسوس کہ نصب شدہ سگنلزبھی تمام وقت صحیح کام نہیں کرتے ، بعض اوقات لائٹ نہیں ہوتی ، بعض سگنلز عرصہ دراز سے خراب ہیں، بعض سگنلز کی ٹائمنگ ٹریفک روانی کے مطابق نہیں جس کی وجہ سے شہر میں ٹریفک کا اژدہام ہے۔ جب دفاتر اور اسکولوں کے ٹائم ہوتے ہیں اس وقت تو نہ اشارے ٹریفک کنٹرول کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہاں کھڑے اکثر وارڈن یہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایمبولنس بھی پھنس جاتی ہیں اور مریض راستے میںدم توڑ دیتے ہیں۔ آئے روز ٹریفک وارڈن اور شہریوں کے درمیان بحث و تکرار اور لڑائی جھگڑے کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں جو وارڈنز نظام سے پہلے بہت کم ہوتے تھے۔ ٹریفک وارڈن ٹریفک کے بہائو کو بحال رکھنے کی بجائے بعض مخصوص اشاروں کے قریب گھات لگائے کھڑے کسی نہ کسی شہری سے لوٹ مار کر رہے ہوتے ہیں ۔ لوٹنے کا لفظ اس لئے استعمال ہورہا ہے کہ وراڈن کو اپنی تنخواہوں اور نوکری بچانے کیلئے ہرروز 20 چالان کا ٹارگٹ پورا کرنا ہوتا ہے۔ پھر حکومت نے لوگوں کو سہولتیں فراہم کرنے کی بجائے چالان پر جرمانے ڈبل کردیئے ہیں۔ اب تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ فرمان جاری کر دیا ہے کہ پانچ مرتبہ چالان کے بعد لائسنس منسوخ کر دیا جائیگا۔ ٹریفک وارڈن کے مبینہ طور پر کرپشن میں ملوث ہونے کے واقعات بھی سننے کو ملتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں ایک اے ایس آئی گلاب سنگھ نے ایک سرکل کے ڈی ایس پی کیخلاف کرپشن کی باقاعدہ تحریری شکایات بھی کی ہوئی ہے۔ اسی طرح مختلف فنڈز میں بے ضابطگیوں کی بھی شکایات ہیں جبکہ ٹریفک کو بحال رکھنے کی بجائے ٹریفک پولیس کا زیادہ تر عملہ وی آئی پی موومنٹ کو بحال رکھنے اور سگنل فری پروٹوکول دینے میں لگا ہوتا ہے ۔ ویسے تو حکومت بڑے دعوے کرتی ہے کہ اس نے سگنل فری کوریڈورز بنادیئے ہیں مگر افسوس کہ ٹریفک نظام میں بہتری کی بجائے مزید الجھائو پیدا ہوگیا ہے، پہلے تو کسی چوراہے یا سگنل پر ٹریفک پھنس جاتی تو کچھ دیر بعد ٹریفک وارڈن آکر بحال کرانے کی کوشش کرتے تھے لیکن سگنل فری کو ریڈورز پر کئی کئی سو گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں جس سے نہ صرف پٹرول کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ ماحولیات کے مسائل بڑھ رہے ہیں ۔ اب تو لاہور میں آلودگی کی وجہ سے وارڈنز نے دوسرے شہروں میں ٹرانسفر کی درخواستیں دینا شروع کر دی ہیں ۔ تمام بڑی شاہراہوں پر حکومت کی سگنل فری کو ریڈورز کی یہ منصوبہ بندی برُی طرح ناکام ہوچکی ہے۔ اس حسن ِ انتظام کو حکومت نے پورے صوبے میں پھیلانے کیلئے ٹریفک پولیس کا نیا سروس اسٹرکچر بنا دیا ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ لاہور میں ٹریفک پولیس کی نفری 45سو تک بڑھائی جائیگی۔
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ نفری بڑھانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ پورے سسٹم میں بہتری اور ٹرانسپرنسی لانے کی ضرورت ہے ۔ ٹریفک وارڈنز کی تنخواہ چالان سے مشروط نہیں ہونی چاہئے ۔ پھر آرڈیننس کے تحت مختلف 24قوانین کی خلاف ورزی پر چالان کرنیکا کوئی معیار ہونا چاہئے ۔ مثال کے طور پر کالے شیشے یا رنگین کاغذ لگا کر گاڑی چلانے پر پانچ سو جرمانہ ہے مگر افسوس کہ ہزاروں بااثر گاڑیاں اس کی پابندی ہی نہیں کرتیں اور نہ ہی وارڈن ان کا چالان کرنے کی جرات کرتے ہیں ایک شق ٹریفک بہائو میں خلل ڈالنے پر دوسو سے ایک ہزار ورپیہ تک جرمانہ ہے ۔ یہاں تو وی آئی پی سے لیکر خود وارڈن خلل ڈالتے ہیں ، ہزاروں گاڑیاں بغیر فٹنس سرٹیفکٹس وارڈنز کی مہربانی سے رشوت کے عوض چل رہی ہیں۔ ہزاروں لوگ موبائل فون کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں ، چالان کے جرائم کی فہرست میں بعض سڑکوں پر بغیر سیٹ بلٹ گاڑی چلانا منع ہے مگر جب کوئی وارڈن جوش میں آتے ہیں تو کسی غریب کو دھر لیتے ہیں ۔ اگر آرڈیننس رولز میں درج کسی دیگر جرم کی سزا مقرر نہیں تو وارڈن کوئی بھی جرم لگا کر دو سو سے پانچ سو روپے تک جرمانہ کر سکتا ہے۔ بس ایک اندھیر نگری ہے اور رولز کے نام پر عام عوام کو بیوقوف بنا یا جارہا ہے اورا ب سو نے پہ سہاگہ ای چالان بھی شروع کر دیئے ہیں۔ اس لئے اپنے فنڈ بڑھانے اور تنخواہوں کیلئے اسطرح لوٹ مار کی دکان بند کرکے اپنے طرز عمل پر غور کرنا چاہئے کہ اگر ایمانداری اور دیانتداری سے قانون سب کیلئے ایک جیسا نہیں ہوگا تو کسی بھی طرح کی جدید ٹیکنالوجی لے آیئے ، نہ تو عوام قبول کریں گے اور نہ ہی اعتماد بحال ہوگا، اسی بداعتمادی کی وجہ سے عوام کی اکثریت بھی ٹریفک کے مسائل بڑھاتی ہے !

تازہ ترین