• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوچتے سوچتے میں مرشدی علامہ اقبال کے پہلو میں جا بیٹھا اور ان کا وہ مشہور شعر گنگناتے ہوئے زیر لب مسکرانے لگا۔ وہی شعر کہ ملت میں یوں گم ہو جا کہ باقی افغانی رہے نہ ایران نہ تورانی۔ شاعر بنیادی طور پر خوابوں کا پیامبر ہوتا ہے۔ یہ خواب پورے ہو جائیں تو شاعر کی عظمت کو چار چاند لگ جاتے ہیں لیکن اگر خواب ادھورے رہیں تو لوگ ایسی شاعری پڑھ کر زیر لب مسکراتے رہتے ہیں حالانکہ یہ ضروری نہیں کہ شاعرانہ خواب فوراً شرمندہ تعبیر ہوں۔ اکثر انہیں حقیقت کا روپ دھارنے میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔ قوموں کے مقدر اور ملکوں کے نقشے برسوں میں نہیں بلکہ دہائیوں اور صدیوں میں تشکیل پاتے اور بدلتے ہیں۔ علامہ اقبال نے جس آزاد مسلمان اور اسلامی مملکت کا خواب دیکھا تھا اور اپنے خطوط کے ذریعے قائداعظم کے ذہن میں اپنی آرزو اور مسلمانوں کی منزل کا تصور راسخ کیا تھا وہ علامہ کی اپنی زندگی میں حقیقت نہ بن سکا۔ خدانخواستہ اگر یہ خواب ادھورا رہ جاتا تو علامہ اقبال اپنی فلسفیانہ شاعری کے سبب آفاقی شاعر کا درجہ تو بہرحال پاتے لیکن پاکستان کے بانیوں میں شمار نہ ہوتے۔
شاعر خواب دیکھتا، تخیل کو آسمانوں کی سیر کراتا اور پھر اپنے نالوں، آہوں اور خوابوں کو الفاظ کا پیرہن پہنا کر پیش کرتا ہے۔ اگر شاعر کا باطن نور الٰہی سے منور ہو اور اس کا سینہ اللہ پاک کی آخری کتاب سے روشن ہو تو اس کا تخیل آسمانوں کی سیر کے دوران سچ کی خوشبو چرا لاتا ہے اور آنے والے واقعات کی جھلک دکھاتا ہے۔ یہ جھلک چند برسوں میں بھی حقیقت بن سکتی ہے اور صدیوں کا سفر طے کر کے بھی سچائی کا روشن مینار بن سکتی ہے۔ وقت کا تعین شاعر کے بس میں نہیں ہوتا، شاعر کا کام محض تصور پیش کرنا اور کبھی کبھار منشائے الٰہی کے اشارے دینا ہوتا ہے مگر یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جس قسم کے شعراء کی بات میں کر رہا ہوں ان کے باطن میں نور الٰہی کی چنگاریاں روشنی پھیلاتی رہتی ہیں اور ان کا تخیل آسمانوں کی سیر کرتا رہتا ہے۔ میں ان شعراء کی بات نہیں کررہا جن کا تخیل محض محبوب اور اس کے حسن و جمال کا طواف کرتا رہتا ہے یا سیاست کے خم کا کل کو سلجھاتا رہتا ہے یا غم روزگار کا نوحہ لکھتا رہتا ہے۔
بات کچھ پھیل سی گئی ہے حالانکہ ایسا ارادہ ہرگز نہیں تھا لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ارادے کب ہمارے اپنے ہاتھوں میں قید ہوتے ہیں؟ ارادے ہمارے قیدی ہوں تو ہم ہمیشہ کامیاب رہیں اور کوہ ہمالیہ کو فتح کرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کے مسائل کو بھی شکست دیتے رہیں لیکن ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ارادہ کرنا ہمارے بس میں ہے لیکن اسے کامیابی سے ہمکنار کرنا ہمارے بس میں نہیں۔ اسی لئے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا کہ میں نے رب کو اپنے ارادوں کی ناکامی سے پہچانا۔ اگر انسانی ارادے ہمارے غلام ہوتے، اگر انسانی ارادے ہمیشہ کامیاب ہوتے، اگر انسانی ارادے ہماری مرضی اور خواہش کے مطابق راستے بناتے تو شاید انسان خود کو خدا سمجھنے لگتا۔ وہ جوچاہتا اور وہ جو سوچتا وہی ہوجاتا تو انسان اپنے آپ کو ’’قادر‘‘ سمجھنے لگتا کیونکہ انسان بنیادی طور پر کمزور ہے اور بہت جلد نفس کے فریب میں پھنس جاتا ہے۔ ارادوں کی ناکامی، انسان کی بے بسی اور پھر یہ احساس کہ ارادوں کی کامیابی کا انحصار کسی اور قوت پر ہے ایسی ٹھوکریں ہیں جو انسان کو اپنے رب کو پہچاننے پر مجبور کرتی ہیں۔
جب مرشدی علامہ اقبالؒ نے یہ شعر کہا تھا؎
بتان رنگ و خوں کو توڑکر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی
اس وقت پاکستان معرض وجود میں نہیں آیا تھا ورنہ علامہ اقبال دوسرے مصرعے میں کہیں نہ کہیںپاکستانی کو بھی شامل کرتے۔ملت میں گم ہونے کی بجائے آج مسلمان قومی ریاستوں کی حدود میں بٹ چکے ہیں۔ ہندوستان ایران کی چاہ بہار بندرگاہ پر قابض ہو چکا ہے جو براہ راست گوادر کی بندرگاہ کے لئے خطرہ ہے۔ افغانستان امریکی غلامی میں جکڑ کر ہندوستان کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے اور امریکہ پاکستان کو شکنجے میں کسنے کے لئے دہشت گردی کو مالی امداد دینے والے ممالک کی واچ لسٹ میں شامل کرنے کے لئے برطانیہ، فرانس، جرمنی کو اپنا ہم نوا بنا چکا ہے ظاہر ہے کہ اس سے پاکستان کی برآمدات و درآمدات بری طرح متاثر ہوں گی، عالمی ادارے آسانی سے قرض اور امداد نہیں دیں گے اور مجموعی طور پر پاکستان کی کمزور مالی پوزیشن مزیدکمزور ہوگی۔ ملت میں گم ہونے کی نصیحت یا خواب جو علامہ اقبال نے دیکھا تھا اس میں شامل ہمارے ہمسائے ملت کے تصور سے ہی غافل ہو چکے ہیں۔ بلکہ ہمسایوں کا تو کیا رونا پوری ملت اسلامیہ آپس میں دست و گریباں ہے، منتشر ہو کر آپس میں لڑ رہی ہے اور اپنی توانائیاں ضائع کررہی ہے۔ دوسری طرف ہماری نگاہوں کے سامنے علامہ اقبال کےتصور کی بنا پر اور قائداعظم کی جدوجہد کے طفیل اور مسلمانان ہند کی مثالی قربانیوں کے صدقے معرض وجود میں آنے والا پاکستان مسلسل زوال کا شکار ہے۔ اقبال اور جناح نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا اسے عالم اسلام کی راہنمائی کرنی اور دنیائے اسلام کا لیڈر بننا تھا لیکن اس کے برعکس پاکستان سعودی عرب، یو اے ای، ایران، افغانستان سمیت پوری اسلامی دنیا میں اپنا اثر و رسوخ کھورہا ہے اور ہندوستان جیسا سیکولر اور مسلمان دشمن ملک ان اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے دلوں میں جگہ بنا رہا ہے۔ آج ہمارے ہمسایہ اسلامی ممالک کے علاوہ ساری اسلامی دنیا میں (ترکی کے سوا) ہندوستان کا پلڑا بھاری ہے۔ حتیٰ کہ فلسطین جس کے ’’کاز‘‘ کے لئے ہم مسلسل ایثار کرتے رہے ہیں وہاں بھی ہندوستان ہم پر بھاری ہے حالانکہ ہندوستان کے اسرائیل سے نہایت قریبی تعلقات ہیں اور یہود و نصاریٰ کا گٹھ جوڑ اندھوں کو بھی نظر آرہا ہے۔ ایک طرف خارجی حوالے سے دنیا بھر میں پاکستان کا وقار زوال کا شکار ہے تو دوسری طرف ملک کے اندر عدالتی اور سیاسی سطح پر جنگ و جدل کا منظر تشکیل پا رہا ہے۔ انتشار پھیل رہا ہے اور معاشرے میں خوفناک جرائم پرورش پا رہے ہیں جو عذاب الٰہی کو دعوت دیتے ہیں جب کہ ہم رحمت الٰہی کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔ تجزیہ کیجئے تو پاکستان کو اس مقام پر پہنچانے میں دوسری قوتوں کے علاوہ سب سے بڑا حصہ بے بصیرت، کرپٹ اور نااہل قیادت کا ہے۔ اللہ پاک نے پاکستان کو قدرتی وسائل، زمین میں چھپے ہوئے خزانوں، زرخیز زمین، محنتی قوم، ذہانت، بدلتے موسموں، پہاڑوں، دریائوں اور سمندر سے نوازا ہے۔ اتنی رحمتیں کم ملکوں کے حصے میں آئی ہیں لیکن ہم اپنی نالائقیوں کے سبب غربت، قرضوں اور بے روزگاری کے چنگل میں گرفتار ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اللہ پاک کی عطا کردہ نعمتوں کو رحمتوں میں بدلنے کے لئے اعلیٰ درجے کی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ نعمتیں پڑی رہ جاتی ہیں۔ رہا اقبال کا تصور ملت تو اسے قومی ریاست کے فلسفے نے وقتی طور پر ناکام کیا ہے۔ہوسکتا ہے صدیوں کی ذلت و خواری کے بعد عالم اسلام ملت کے تصور کی جانب رجوع کرے یا کوئی ایسی قیادت ابھرے جو مسلمانوں کو متحد کردے۔ مجھے یقین ہے کہ علامہ اقبال کا خواب جھوٹا نہیں ہوسکتا کیونکہ علامہ اقبال کا باطن روشن تھا۔ یاد رکھیں کہ روشن باطن جھوٹے خواب نہیں دیکھتا۔

تازہ ترین