• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھلے وقت ہوتے تو سیاست و کھیل کے بے تاج بادشاہ کی شادی خانہ آبادی پر سہرے لکھے جاتے، نوشہ کے عقد ثلاثہ پر رنگا رنگ مضمون باندھے جاتے، سرتاج اور سہاگن کی جوڑی پر نئے نئے ردیف اورقافیے آزمائے جاتے، سسرال اور میکے کی خوش بختی کی داستانیں جوڑی جاتیں، وکیل، گواہ اور نکاح خواں کے لئے عرش اورفرش دونوں پر اعلیٰ ترین درجوں کے لئے دعائیں کی جاتیں۔ ملک میں خوشی کے شادیانے بجتے، ڈھول باجوں کا شور ہوتا، عودوچنگ کے آلات سنے جاتے، نوبت اور رباب کی آوازیں گونج رہی ہوتیں، چمٹا اور شہنائی والے اپنی الگ محفل سجائے ہوتے، فلوٹ اور کلارنٹ کے شوقین ذرا ہٹ کرجمگھٹا لگائے ہوتے مگر افسوس حسد، رقابت اور سیاسی مخالفت کی وجہ سے مایہ ناز کھلاڑی، دلوں کی دھڑکن ، سیاست کے شہزادے اور اب روحانیت کے شناور کےلئے خوشی کے ان لمحات پر بجائے اسےمبارکباد دینے اور اس کی خوشیوں میں شریک ہونے کے، اس پر تنقید کے نشتر آزمائے جارہے ہیں۔ مجھے اس رویے سے شدید اختلاف ہے۔ میں شاعر ہوتا تو خوشی کے اس موقع پر سہرا لکھ کر سنہری فریم کروا کے بنی گالہ میں خود جا کرپیش کرتا مگر افسوس میں تو چھوٹاسا قلمکارہوں۔ وہ الفاظ و تراکیب کہاں سے لائوں جو جوشؔ یا داغؔ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی تھیں۔
شادی کا یہ نثری سہرااس لئے لکھنا ضروری ہے کہ یہ شادی بنیادی طور پر روحانی شادی ہے۔ لوگوں کوشاید علم نہ ہو کہ کرشماتی ہیرو بالکل بدل چکے ہیں۔ ماضی کی پارٹیاں اور دن رات کی سرگرمیاں کب کی ترک کر دیں۔ اب تو تسبیح ہے، نمازیں ہیں اور نوافل حتیٰ کہ اب تو وہ اشراق بھی پڑھتے ہیں۔ عبادات اوروظیفے معمول بن چکے ہیں۔ بنی گالہ کی فضا کئی ماہ پہلے سے ہی روحانیت سے معمور ہو چکی ہے۔ ہر طرف بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی ہے۔ جھیل کا پانی پہلے سے زیادہ صاف ہو گیا ہے اور اب اس کارنگ پہلے سے بھی زیادہ نیلا نظر آتا ہے۔ اس دفعہ موسم بہار کے اودے اودے نیلے اور پیلے پھول وقت سے پہلے ہی کھل گئے ہیں۔ رفیقہ ٔ حیات بنی گالہ پہنچیں تو فضا بھی مترنم ہوگئی ہوگی۔ اگرچہ ڈھول تاشے نہیں بجے مگر چڑیاں تو چہچہائیں ہوں گی ۔ بلبلیں اور کوئلیں تو چہکی ہوں گی۔ موقع ہی ایسا ہے آیئے سب مل کر ان کی شادی خانہ آبادی کی کامیابی کی دعا کریں۔
افتادگان خاک کو نوید ہوکہ اب بنی گالہ میں خوشی اور اطمینان کا ماحول ہوگا تو اس کے اثرات پورے پاکستان پر پڑیں گے۔ اچھی پالیسیاں، اچھے بیانات اور اچھے کھانوں کا دور شروع ہو گا۔ الزامات تنقید اور سب وشتم میں اب محبت کی چاشنی شامل ہوگی تو ’’اُن‘‘ کی کڑواہٹ کی شدت میں کمی آ جائے گی۔ یہ صرف دو افراد کی شادی کا سہرا نہیں، تاریخ کا ایک بہت بڑا سنگ میل ہے کیونکہ اس واقعے کے بعد سے پوری قوم کے موڈ میں تبدیلی کا امکان ہے۔ غصہ، لڑائیاں، انتقام اور الزامات اب قصہ پارینہ بن جائیں گے اور ملک میں امن و آشتی کا نیا دور شروع ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ ملک پر جو روحانی اثرات پڑیں اس کے نتیجے میں ملک میں ایک قومی ڈائیلاگ شروع ہوجس میں حکومت، عدلیہ، فوج اور اپوزیشن سمیت سب اسٹیک ہولڈرز شریک ہوں، ملک میں منصفانہ و غیرجانبدارانہ عام انتخابات اور نگران حکومت پر اتفاق رائے ہو جائے اور یوں بحرانوںکا شکار ملک ایک بارپھر سے دھچکوں سے نکل کر سیدھے جمہوری راستے پر چل پڑے۔
آسمانوں پر طے ہونے والی اس روحانی شادی کے ’’نثری سہرا نگار‘‘ کو یہ الہام ہواہے کہ اس روحانی شادی کی وجہ سے پاکستان پر مثبت روحانی اثرات پڑیں گے۔ 1965کی جنگ میں جس طرح سبز پوش اترے تھے اور انہو ںنے بم اٹھاکر واپس فضااور راوی میں پھینک کر لاہور کوبچا لیا تھا، اب بھی اسی طرح روحانی تصرف سے پورے پاکستان کی حفاظت یقینی بنائی جائے گی۔ امریکہ اب ہمیں میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکےگا۔ اگر امریکہ نے ڈرون سے بم پھینکے تو ہم اپنی پراثر دعائوں سے انہیں فضا میں ہی ناکارہ بنا دیں گے۔ بھارت نے اگر ملک پر میلی نظر ڈالی توہم اپنی بددعائوں سے بھارت کی توپوں میں کیڑے ڈال دیںگے۔ اسی طرح اگر افغانستان کی کٹھ پتلی حکومتوں نے ہمارے خلاف سازشیں برقرار رکھیں تو ہم تعویز دھاگے سے ہی کابل کو تباہ و برباد کردیں گے۔ اورتو اور اسرائیل کی نیت میں فتور آیا تو ہم اس صہیونی ریاست کابھی ایسا روحانی بندوبست کریں گے کہ نیتن یاہو کو چھٹی کا دودھ یادآ جائے گا۔
کون کہتا ہے کہ یہ عام شادی ہے ۔ ہرگز نہیں، یہ سراسر روحانی شادی ہے۔ کہاں اس نے دنیا بھر کی چندے آفتاب چندے ماہتاب، فیشن ایبل ترین اور امیر ترین خاتون سے شادی کی اور کہاں اب برقع پوش پانچ بچوں کی ماں، سرخ چادر اوڑھے، روحانی پیشوا اور پیرنی کی تصویر۔ یہ سراسر روحانی بالیدگی کا سفر ہے جس سے قومی ہیرو گزرر ہا ہے۔ شادی کےبعد روحانیت کا یہ سفر نئی منزل پر پہنچے گا اور اگر نثری سہرا نگار کے الہام پر یقین کرلیا جائے تو اب اقتدار کی سواری خود قومی ہیرو کو بنی گالہ سے لینے آئے گی۔ اس ملک میں اب روحانیت کا دوردورہ ہوگا۔ مادیت اور اقتدارکی جدوجہد کرنے والے یہ زرداری، یہ شریف، یہ مولوی، سب پیچھے رہ جائیں گے اب تو صرف عمرانی پرچم بلند ہوگا۔ یاد رکھیں اقتدارمیں آتے ہی ملک میں ترقیاتی کاموں، تعلیم و صحت کے فروغ کے ساتھ ساتھ روحانیت کےشعبے پر بھی خصوصی توجہ دی جائے گی۔
کوئی کچھ بھی کہے مگر ستار ےکہتے ہیں کہ اس روحانی جوڑے نے باقی سیاستدانوں کا مستقبل تاریک کردیا ہے۔ ان میں سے کون اس قابل ہے کہ وہ ایسی روحانی شادی کرکے اعلیٰ رتبہ پاسکے۔ نوازشریف اور زرداری کو تو ہمارے ہیرو نے نکاحِ ثلاثہ کے ایک ہی وار سے فارغ کردیاہے۔ ان کا اس معاملے میں کوئی حریف ہے تو وہ چھوٹا شریف ہے جو عقد ثلاثہ کے تجربے سے گزرچکے ہیں مگر انہیں وہ روحانی بالیدگی حاصل نہ ہوسکی جس سے قومی ہیرو جلا پارہے ہیں۔ اس لئے یہ طے ہے کہ اس میدان کے اکیلے فاتح وہی ہیں جو اب ہمارے قومی نوشہ بھی ہیں اور ہمارے مستقبل قریب کے وزیراعظم بھی۔ ہونا تو یہی چاہئے کہ روحانی شادی کا یہی سفر انتخابی مہم کا بھی آغاز ہو۔ کپتان سیاست کے ساتھ ساتھ روحانیت کی دولت سے مالامال ہو کر انتخابی مہم کے لئے نکلیں۔ اب وہ روحانیت اور مادیت دونوں صفات کے بدرجہ ٔ اتم مالک ہوچکے ہیں اس لئے اب شاید ہی کوئی سیاسی حریف ان کے مدمقابل ٹھہر سکے۔
پرانے وقتوں میں سہرا لکھنے والوں کے منہ موتیوں سے بھرے جاتے تھے، سونے کے ہارپہنائے جاتے تھے، خلعتوں سے نوازا جاتا تھا، خطابات دیئے جاتے تھے مگر اب وقت بدل چکے نہ یہ نثرنگار متمنی ہے اور نہ ہی یہ نوشہ بادشاہوں کی فرسودہ روایات کو جاری رکھنے کا حامی ہے۔ اب تو اگر کسی نے تحسین کرنی ہے یا نفرین، قصیدہ لکھنا ہے یا بدگوئی، غزل لکھنی ہے یا ہزل، سب ایک برابر ہیں کیونکہ جو نادان گالیاں بھجواتے ہیں صحافتی حساب کتاب میں وہ بھی پھول ہی شمار کئے جاتے ہیں۔

تازہ ترین