• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنا ہے کہ دن میں اسے بھاگتی دوڑتی اودھم مچاتی گاڑیاں ڈراتی ہیں۔ وہ راستہ پار نہیں کرسکتی۔
سنا ہے رات میں اسے ٹریفک کی چیخیں ستاتی ہیں۔ وہ بے چاری رات بھر سو نہیں سکتی۔
سنا ہے روزانہ تین سو کاریں، ویگن، پک اپ، بسیں، اور ٹرک کراچی کی سڑکوں پر اترتے ہیں۔ اور کراچی کے بے ہنگم ٹریفک میں اضافہ کرتے ہیں۔ سنا ہے روزانہ چار سو موٹر سائیکلیں کراچی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کو رونق بخشتی ہیں۔ سنا ہے روزانہ ایک سو رکشے کراچی کی البیلی ٹریفک میں شامل ہوتے ہیں۔
جس معاشرے میں قومی شناختی کارڈ بکتے ہوں، اور جعلی پاسپورٹ بنتے ہوں، ایسے معاشرے میں ٹوٹی پھوٹی اور چھکڑا گاڑیوں کو فٹنس Fitness سرٹیفکیٹ مل جاتے ہیں۔ سنا ہے ایک دن میں ایک بھی چھکڑا گاڑی آف روڈ Off-road نہیں ہوتی۔ کراچی کی سڑکوں پر بھاگنے دوڑنے اور رینگنے والے کاکروچ ٹریفک میں ایک بھی گاڑی دھواں نہیں چھوڑتی۔ ایک بھی گاڑی کے شیشے ٹوٹے ہوئے نہیں ہوتے۔ ایک بھی گاڑی کے بلب فیوز نہیں ہوتے۔ ایک بھی گاڑی کے بریک فیل نہیں ہوتے۔ کسی بھی گاڑی کے ٹائر گھسے ہوئے نہیں ہوتے۔ کسی بھی گاڑی کی لائٹیں ٹوٹی پھوٹی نہیں ہوتیں۔ کسی بھی گاڑی کی نمبر پلیٹ غائب نہیں ہوتی۔ لاکھوں کی لاکھوں گاڑیاں بھلی چنگی ہوتی ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کراچی کی دو کروڑ کی آبادی میں کوئی شخص بیمار نہیں ہوتا آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ سڑکیں چوڑی نہیں ہوسکتیں۔ فلائی اوور بن نہیں سکتے۔ شہر کے بیچوں بیچ فلائی اوور بنانے کے لئے آپ کو بلڈنگیں مسمار کرنی پڑیں گی۔
آپ جانتے ہیں کہ کراچی کے گرد گھیرا ڈال دیا گیا ہے؟ کراچی شہر Besieged ہے۔ پورا شہر طرح طرح کی کالونیوں اور کچی آبادیوں میں گھرا ہوا ہے۔ سنا ہے کہ روزانہ دو سے تین ہزار لوگ کراچی کو اپنا مسکن بناتے ہیں۔ وہ لوگ انہی کالونیوں اور آبادیوں میں ضم ہوجاتے ہیں۔ کچھ ہی دنوں میں پاکستان کا شناختی کارڈ حاصل کرلیتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کرتے ہیں۔ ان کا ذریعہ معاش کیا ہے۔ کراچی میں روزانہ اتنے بچے پیدا ہوتے جتنے لوگ روزانہ کراچی میں وارد ہوتے ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے وسائل بڑھانے پڑتے ہیں۔ زیادہ گیس، بجلی، پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ سر چھپانے کے لئے جگہ کی ضرورت پڑتی اورمرجانے کے بعد قبرستانوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ غلاظت صاف کرنے کے لئے سیوریج sewerage کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسپتالوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ درسگاہوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ نقل و حمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
مختلف ممالک اور علاقوں سے آکر کراچی میں بسنے والے لوگ اپنے ساتھ اپنی تہذیب، اپنا تمدن لے آتے ہیں۔ اپنی ثقافت لے آتے ہیں۔ اپنی اقدار لے آتے ہیں۔ اپنے رویے لے آتے ہیں۔ جغرافیہ وہاں رہنے بسنے والے لوگوں کی مکمل شخصیت پر مستقل چھاپ چھوڑ دیتا ہے۔ مختلف جغرافیائی علاقوں میں بسنے والے لوگ ذہنی اور جسمانی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں کے لوگ میدانی علاقوں کے لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ سرد علاقوں کے لوگ دیکھنے میں اور اپنے مزاج میں گرم علاقوں میں بسنے والے لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے درمیان چپقلش فطری عمل ہے۔ صرف سماجی اور اقتصادی مساوات کو یک جا کرسکتے ہیں۔ تعلیم اور تربیت سے ان کے درمیان برداشت Tolerance کا عنصر پیدا کیا جاسکتا ہے۔ یہ باور کرلینا کہ ایک ہی عقیدے کے لوگ آپس میں نہیں لڑتے، درست نہیں ہے۔ ہماری اپنی تاریخ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
ہندوستان کے بٹوارے کے بعد پاکستان کا کوئی شہر اس قدر تہ و بالا نہیں ہوا ۔جتنا کہ میرا پرانا شہر کراچی میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ میرا شہر کراچی کیماڑی سے شروع ہوتا ہے اور ٹکری پر ختم ہوتا ہے۔ ٹکری پر قائد اعظم کا مقبرہ بنا ہوا ہے۔ میرے پرانے شہر کراچی کی حالت زاردیکھنے کے بعد آپ ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد دیکھنے جائیں۔ راستے کھلے کھلے۔ سڑکیں صاف ستھری۔ کیا مجال کہ آپ کو فٹ پاتھوں پر کچرے کے ڈھیر نظر آئیں! خوبصورت عمارتیں۔ دیدہ زیب دکانیں۔ کھیل کے میدان۔ درخت، پھول، باغ باغیچے! لگتا نہیں ہے کہ ناظم آباد میرے پرانے شہر کراچی کا ایکسٹینشن ہے، یعنی پھیلائو ہے۔ وجہ؟ ناظم آباد میں زیادہ تر ایک ہی تہذیب و تمدن کے لوگ رہتے ہیں۔ ایک ہی مزاج کے لوگ رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے رویوں اور طبیعتوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ میرا پرانا شہر کراچی اس طرح اجڑا ہے کہ جیسے تاتاریوں نے پورا شہرروند ڈالا ہو۔ ٹرام کی پٹریاں پورے شہر میں پھیلی ہوئی تھیں۔ کیماڑی، صدر، کینٹ ریلوے اسٹیشن، سولجر بازار، گاندھی گارڈن (اب چڑیا گھر)، جھونا مارکیٹ (جھونا کا مطلب ہے پرانا)، بند رروڈ (اب ایم اے جناح روڈ) اور چاکیواڑہ… آپ جہاں جانا چاہیں، ٹرام میں بیٹھیں اور وہاں سے ہو آئیں۔ کراچی کی اکھاڑ پچھاڑ کرنے والوں نے ٹرام کی پٹریاں اکھاڑ دیں۔ دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں ٹرام رواں دواں ہے۔ کراچی کو اجاڑنے والوں نے کراچی ٹرام وے سسٹم ختم کردیا اور کراچی میں سائیکل رکشے چلا دئیے۔ سائیکل رکشے مشینیں نہیں، آدمی چلاتے تھے۔ کراچی میں اٹھارہ ایسی عمارتیں تھیں جن پر بہت بڑے بڑے گھڑیال clock لگے ہوئے تھے۔ اب صرف تین عمارتوں پر گھڑیال دکھائی دیتے ہیں۔ کراچی میونسپل کارپوریشن، ایمپریس مارکیٹ اور میری ویدر ٹاور… مگر وقت نہیں دکھاتے۔ صرف دکھائی دیتے ہیں۔
ایرانی ہوٹل کراچی کی پہچان ہوتے تھے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے کے بعد آپ کو چائے بسکٹ اور کھانے پینے کے لئے نہایت صاف ستھرے ایرانی ہوٹل مل جاتے تھے۔ اب ڈھونڈے سے بھی ایرانی ہوٹل آپ کو نہیں ملے گا۔ ایرانی ہوٹل پارسی چلاتے تھے۔ پارسی کراچی کے معمار تھے۔ بٹوارے کے بعد کراچی سے ہندو اور سکھ چلے گئے۔ عام طورپر یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آتی کہ بٹوارے کے بعد پارسی اور کرسچن جن کو عرف عام میں اینگلو انڈین کہتے تھے، وہ کیوں کراچی سے چلے گئے۔ بٹوارے سے پہلے صدر میں زیادہ تر پارسی، کرسچن اور غیرملکی سیاح نظر آتے تھے۔ کراچی کے ہم پرانے باسی سمجھتے ہیں کہ پارسی اور کرسچن Visionary تھے۔ وہ کراچی کا مستقبل دیکھ سکتے تھے۔ چپکے سے چلے گئے۔

تازہ ترین