• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیابھر کی طرح امریکہ میں بھی ویلنٹائن ڈے منایا جا رہا تھا۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں اور پریمی جوڑوں نے سرخ رنگ کے لباس زیب تن کر رکھے تھے۔ کسی نے سرخ رنگ کی شرٹ پہن رکھی تھی تو کسی نے سرخ رنگ کا مفلر اوڑھ رکھا تھا۔ کسی نے ویلنٹائن ڈےکے اسی رنگ کی مناسبت سے گلاب کے پھولوں کا گلدستہ اُٹھا رکھا تھا تو کسی نے سرخ رنگ کے غباروں کے گچھے تھام رکھے تھے کہ فلوریڈا کے ہائی اسکول کے ایک سابق اسٹوڈنٹ نے قیامت بپا کر دی۔ اسکی فائرنگ سے 17 نوجوان موت کے گھاٹ اُتر گئے۔ پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اس لڑکے کو گرفتار کر لیا جس نے اندھا دھند فائرنگ سے اپنے ہی اسکول کے اسٹوڈینس کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔ میڈیا کے ذریعے یہ خبر ساری دنیا میں پھیل گئی تھی۔ امریکہ میں بھی سب لوگ کف افسوس مل رہے تھے اور صف ماتم بچھ گئی تھی۔ جہاں لوگوں نے مرنے والوں کے عزیز و اقرباء کے دکھ میں شریک ہونے کے لئے مرنے والے لوگوں کے لئے پھولوں کے گلدستے رکھے۔ ہاتھوں میں موم بتیاں پکڑ کر مارچ کیا۔ وہاں پولیس نے ملزم جس کا نام نکولس کروز تھا اور اسکی عمر 19 سال تھی کو گرفتار کرکے تفتیش شروع کر دی ،وہاں ہی تھنک ٹینکس، دانشوروں اور میڈیا کے لوگوں نے اس واردات کی کھوج کے لئے سر جوڑ لئے۔ معلوم ہوا کہ نکولس کروز اسی اسکول کا اسٹوڈنٹ تھا لیکن اسکی حرکات و سکنات، اس کا برتائو اسکی تعلیم میں عدم دلچسپی ا سکول اور اس کے اساتذہ کے لئے سر درد بن رہی تھی ،جس کے نتیجے میںا سکول نے اسکے خلاف کارروائی کی اور اسے نکا ل دیا گیا۔ 19 سالہ نکولس کی فائرنگ کی واردات کے بعد جب تھنک ٹینکس نے سر جوڑے اور کھوج لگایا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک یتیم اور لے پالک بچہ تھا اور اسکی ماں بھی چند سال پہلے فوت ہو چکی تھی۔ نکولس کی واردات کے بعد شاید کسی اخبار، کسی ریڈیو یا کسی ٹی وی چینل یا کسی تنظیم نے یہ نعرہ بلند کیا ہو کہ نکولس کو سخت سزا دی جائے۔ اس کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔ گرفتار کے بعد قانون کے مطابق کارروائی کے لئے اُسے عدالت ضرور پیش کیا گیا لیکن 19 سالہ نکولس کے خلاف جلائو گھیرائو اور جلوس نہیں نکالے گئے بلکہ سب اس سوچ بچار میں لگ گئے کہ بطور قوم، بطور معاشرہ ہم سے کہاں غلطی ہوئی ہے۔ ہاں فلوریڈا اور دوسرے شہروں میں کچھ جلوس بھی نکلے ہیں لیکن وہ اس لئے تھے کہ اسلحہ تک رسائی اور خریداری پر پابندی لگائی جائے یہ تو امریکہ میں رونما ہونے والا ایک افسوسناک واقعہ تھا۔ اب میں آپ کے سامنے ایک اور تصویر پیش کرنا چاہتا ہوں کہ معصوم زینب سے زیادتی اور قتل کا جرم ثابت ہونے کی وجہ سے عمران کو چار بار قید، ایک بار عمر قید، ایک بار سات سال قید اور کئی ملین روپے نقد کا جرمانہ کیا گیا۔ پورا ملک عمران کی تصویر دیکھ کر اس پر لعنت بھیج رہا ہے اور یہ کہہ رہا ہے کہ اُس نے جتنا سنگین جرم کیا ہے یہ سزا بہت کم ہے اسے اس سے بھی سخت اور تکلیف دہ سزا دینی چاہئے۔ میں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ عمران کو عبرت کا نشان بنانا چاہئے اور ہمارا مذہب اور ہمارا قانون بھی یہی کہتا ہے لیکن جہاں میں پوری قوم کو یہ مبارکباد دیتا ہوں کہ چار روز میں چودہ چودہ گھنٹے مقدمے کی کارروائی کرکے اس کیس کو نمٹایا گیا ہے اور جرم ثابت ہونے پر عمران نامی مجرم کو سخت سزا سنائی گئی ہے وہاں دو کام اور بھی کرنے چاہیں۔ پہلا کام یہ کہ ہمارے معاشرے میں ایسی وارداتیں کثرت سے کیوں ہو رہی ہیں اس کے اسباب کیا ہیں۔ کیونکہ کوئی پرہیزگار ہو یا عمران جیسا ظالم اور مجرم سب کو مائوں نے نو ماہ تک اپنے شکم میں رکھ کر ایک معصوم بچے کی طرح جنم دیا ہوتا ہے ۔پھر کیا بات ہے کہ کوئی اپنے والدین کے لئے، اپنے علاقے کے لئے، اپنے ملک کے لئے اور پھر دنیا کے لئے نیک نامی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے کام سے لوگوں کو سکھ اور چین ملتا ہے اور کوئی اپنی اس ماں ، اُسی باپ، اپنے رشتہ داروں، اپنے علاقے، اپنے معاشرے اور اپنے ملک کے لئے ایک سیاہ دھبہ بن جاتا ہے۔ کیونکہ ایک عمران کو سزا دینے سے بطور معاشرہ ہماری خامیاں ختم نہیں ہوں گی جنہوں نے ہمارے معاشرے کو پراگندہ کر دیا ہے دوسرا کام ہمیں یہ کرنا ہو گا کہ عمران کا ایک بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے اور قتل کرنے کے بعد اپنی گنتی کو 9 تک پہنچانے کے لئے کس کس کی غفلت تھی، کس کس نے اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے ہوئے قصور کے شہر کو اور عمران کو پاکستان کے لئے دنیا بھر میں دھبہ بنا دیا کیونکہ ایک عمران کو سزا دینے سے انصاف نہیں ہو گا بلکہ ہر اُس شخص کو جس نے غفلت برتی ہے اس کو اتنی ہی سزا دینا ہو گا جو عمران کو دی جا رہی ہے یہ دوکام بہت ضروری ہیں ورنہ چار بار سزائے موت ، عمر قید، 30,40 لاکھ جرمانہ ،یہ انصاف نہ ہو گا۔

تازہ ترین